اتراکھنڈ میں ہزاروں مسلمانوں کا مستقبل داؤ پر
✍: سمیع اللہ خان
اتراکھنڈ میں ہزاروں مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلنے والا ہے، قریب 4 ہزار مکانات کو ہندوتوا کا بلڈوزر مسمار کرنے جارہاہے جن میں سے اکثریتی مکانات غریب مسلمانوں کے ہیں،
چار ہزار مکانات کے انہدام کا مطلب بیس ہزار سے زائد انسانوں کو سڑک پر لانا ہے، چار ہزار مکانات میں اگر اوسطا چار۔سے پانچ افراد بھی رہ رہے ہوں تو بھی بےگھر ہونے والوں کی تعداد بیس ہزار سے متجاوز ہوگی، مسلمانانِ ہند پر یہ ایک ایسی قیامت مسلط ہونے والی ہے کہ اگر یہ ظلم اتنے بڑے پیمانے پر واقع ہوگیا تو پھر موجودہ بھارت میں ملک بھر کے مسلمانوں کا مستقبل واضح ترین سوالیہ نشان کی زد میں ہوگا، لیکن کیا آپ نے اس حساس ترین ملّی قضیے پر کوئی طاقتور ملی گُہار سنی؟ جبکہ ہمارا دعویٰ تو یہ ہے کہ ہم اس نبی کے امتی اور ایسے اسلاف کے جانشین و نام لیوا ہیں جو دنیا کے آخری سِرے پر بھی کسی مسلمان کی پریشانی کا سن لیتے تو بےچین ہوجاتے اور تڑپ اٹھتے تھے ! ہائے یہ دعوائے مسلمانی اور یہ مسلمان !
اتراکھنڈ ایک ایسی ریاست ہے جسے ہندوؤں کے مرکزی مذہبی مقامات میں سے ایک سمجھا جاتاہے، وہاں پر سال کے ۱۲ مہینے سادھوؤں، پنڈتوں اور سوامیوں کا بول بالا رہتاہے، اتراکھنڈ میں ہی وہ دھرم سنسد ہوئی تھی جس میں بڑی تعداد میں ہندو پنڈتوں نے مسلمانوں کےخلاف ہتھیار اٹھانے کی اپیل کی تھی، اتراکھنڈ میں آپ جائیے تو یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ پائیں گے کہ یہ جگہ معنوی طورپر تقریباﹰ ہندوراشٹر ہے، یہی وجہ ہے کہ اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ کا ٹرائل اولین مرحلے میں ہونے کا امکان ہے، اتراکھنڈ میں جابجا پنڈتوں کا اثر دیکھنے کو پہلے بھی ملتا تھا لیکن 2014 کےبعد سے اس جگہ پر بھاجپائی ہندوتوا کے زہریلے اثرات بڑے پیمانے پر پھیل گئے ہیں، ہندوتوا کارکن یا غنڈہ ہونے کے زعم میں غریبوں، دلتوں اور مسلمانوں کےخلاف نفرت، وحشت، تشدد اور غنڈہ گردی کو فروغ ملا ہے جس پر لگام کسنے میں پولیس اور سرکار بھی ناکام رہتی ہے،
اب تک اتراکھنڈ میں بھاجپائی ہندوتوا کے غنڈے اپنی اپنی مافیا سطح کےحساب سے مسلمانوں پر ظلم کررہےتھے اور ان کےخلاف نفرت پھیلاتے تھے لیکن اب ہلدوانی میں 4 ہزار مسلمانوں کے گھر توڑے جانے کا فرمان ریاستی ہندوتوا سرکار نے جاری کردیاہے، جس کےذریعے اتراکھنڈ کی ھندوتوا سرکار یہ پیغام دے رہی ہے کہ وہ اپنی ہندوتوا سرزمین پر غیر ہندوؤں کو برداشت نہیں کرےگی اور اتراکھنڈ کو پہلا ہندوراشٹر اسٹیٹ بنانے کے سلسلے میں وہ ہر ممکن قدم اٹھائیں گے، اتراکھنڈ میں اتنی بڑی تعداد میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا ایک دوسرا مقصد یہ بھی ہےکہ مسلمان مرتد ہوجائیں ! جب سرکاریں اس درجہ وحشیانہ مظالم پر آمادہ ہوں اور اتنی بڑی آبادی کو ان کی چھتوں سے محروم کرنے کے لیے پرعزم ہوجائے توپھر ایسے بدترین، غیرانسانی اور انتہائی درندگی کےخلاف آواز اٹھانا اور انصاف کو یقینی بنانے کے لیے اٹھ کھڑا ہونا ہر انسان پر فرض ہوجاتا ہے ہر مسلمان کا ایمانی امتحان بن جاتاہے، اگر ایسی درندگی کو برداشت کیا گیا تو کل جب ہمارے مکانات پر بھی ہندوتوا کا بلڈوزر چلےگا تو ہمیں بھی موت کا سناٹا سنائی دے گا، مرد، اور عورتیں ہی نہیں بلکہ بوڑھے، بوڑھیاں اور چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہزاروں کی تعداد میں بےگھر ہونے جارہے ہیں، اس کا تصور ہی کتنا دلدوز ہے ! لیکن سوال وہی ہےکہ جن لوگوں کو اس وقت ان مظلوم عورتوں کی مدد کرنی چاہیے وہ مسلم لیڈر لوگ کہاں ہیں؟ ہماری عورتیں اور بچیاں سڑک پر آ آ کے فریاد کررہی ہیں لیکن لیڈرشپ کے خون میں کوئی ابال نہیں آ رہا ہے، آئین و جمہوریت والے بھی اپنے سیکولرازم کا تماشا دیکھ رہےہیں !
ہندوتوا سرکار مسلم دشمنی میں انسانیت سوزی کی تمام حدیں پار کررہی ہے، یہ لوگ مسلم دشمنی میں پاگل ہوچکے ہیں، لیکن یاد رہےکہ، ان کا پاگل پن خود انہیں ان کے بدترین انجام کی طرف لے جارہا ہے، ایسی فاشسٹ سرکاریں خود برباد ہوجاتی ہیں، ایسے جلاد صفت ظالم حکمران ہواؤں میں بکھر جاتےہیں جو انسانوں کے سروں سے ان کی چھت کو چھین لیتےہیں وہ خود بھی سایوں سے محروم ہوجاتےہیں، یہ کیسے بدترین لوگ اس ملک پر راج کرنے لگےہیں جو بیک وقت بیس بیس ہزار انسانوں کے گھر اجاڑنے کی حد تک سفّاک ہیں یہ کیسی دشمنی یہ کیسی نفرت ہے ؟ !