پارساؤں کی سرپرستی میں، میکدے چل رہے ہیں بستی میں
ازقلم: عمران راشد
ترجمان کانگریس پارٹی
رکن و فاؤنڈر ایم ڈی ایف
9860477278
شہر مالیگاؤں کو کس کی نظر لگ گئی؟ یہ جملہ تو آپ نے ضرور سنا ہوگا۔ کتنی نادانی والی بات ہے۔ کسی کی نظر کیوں لگے گی ؟ یہ سب ہماری لا پرواہی، دین اور علم سے دوری، اور غلامانہ ذہنیت کا نتیجہ ہے۔
تقریبا ایک سال قبل ایک بڑے ٹی وی چینل کے اینکر سے میری بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ عمران مالیگاؤں میں نشہ بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ آپ کے بازوں کھڑا شخص نشے میں ہے اور آپ کو پتہ نہیں چلے گا۔ مزید کہا کہ ایک سازش کے تحت مسلم علاقوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ گو ونڈی ، ممبئی کے دیگر علاقے، بھیونڈی اور اب مالیگاؤں نشانہ پر ہے۔ شہر میں صرف مرد ہی نہیں خواتین بھی نشہ کررہی ہیں یہ میرا آنکھوں دیکھا حال ہے۔ اس وقت ایم ڈی ایف کے ممبران سر جوڑ کر بیٹھے کہ اس تعلق کیسے کام کیا جائے ؟ اس وقت شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ اس کے خلاف بہت بڑی طاقت درکار ہے۔
لہذا ان دنوں شہر کی دو شخصیات کی سرپرستی میں نشہ کے خلاف مہم چھیڑی گئی جوکہ قابل مبارکباد اور قابل ستائش ہے۔ اس تحریک سے ہر کسی کو جڑنا چاہئے۔ لیکن صاحب شہر میں بائینر دیکھ کر اور مشاورتی میٹنگ میں اسٹیج پر بیٹھے افراد کو دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ آپ شہر میں لگے بائینر کا جائزہ لیجئے ماشاءاللہ ایسے ایسے فوٹو نظر آئیں گے جو خود نشے کے عادی ہیں۔ جو خود نشہ کا دھندہ کرتے ہیں یا پھر نشہ بیچنے والوں کو ان کی سرپرستی حاصل ہے۔ ایسا ہی کچھ منظر مشاورتی میٹنگ میں بھی دیکھنے کو ملا تب مجھ کو مقصود اشرف صاحب کا یہ شعر یاد آیا۔
پارساؤں کی سرپرستی میں
میکدے چل رہے ہیں بستی میں
ان تحریکوں اور طریقوں کو لیکر چند سوالات ذہن میں اٹھ رہے ہیں۔
کیا صرف جلسہ لینے سے نشہ ختم ہوجائے گا ؟
کیا جلسے میں نشے کے عادی افراد آئیں گے ؟ ہاں ضرور آئیں گے لیکن پاکٹ مارنے اور موبائل چوری کرنے کے لئے۔
تحریک شروع ہوگئی ہے پولس ابھی تک ایکشن میں کیوں نہیں؟
ہمارے شہر کا پولس محکمہ اتنا مضبوط ہے کہ شہر میں کسی کے کھانسنے کی آواز بھی پولس کو سنائی دیتی ہے۔ تو پھر نشہ بیچنے والے ابھی تک گرفت سے دور کیوں؟
کھلے عام میدانوں میں، ہاسپٹل کے سامنے ندی نالوں کے پاس نشہ کی فروختگی اور اس کا استعمال ہورہا ہے۔ پولس بے خبر کیوں؟
مشاورتی میٹنگ میں کالے پیلے دھندے کرنے والوں سے تجویز پوچھی جارہی ہے۔ سماجی کام کرنے والے، ٹیکنیکل بات جاننے والے، ڈاکٹر حضرات، زمینی سطح پر کام کرنے والوں سے کیوں نہیں؟ خیر اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ شہر کو نشے سے پاک کس طرح کیا جاسکتا ہے ؟ اس کا حل جلسہ جلوس، ریلیاں ، بائینر و پوسٹر بازی ہر گز بھی نہیں ہے۔ بلکہ اس کے لئے سب سے پہلے مقامی پولیس انتظامیہ پر دباؤ بنانا بہت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ نشہ مخالف اسکواڈ سے رابطہ کیا جائے ۔ اعلی عہدیداران تک لیٹر پہچائے جائے۔ ٹیوٹر ہینڈل اور سوشل میڈیا کا استعمال کیا جائے۔ وکلاء کی ایک لیگل ٹیم بھی تشکیل دی جائے تاکہ ان کے مشورہ سے قانونی کارروائی میں رہنمائی ملے اور شہر میں نشے کی فروختگی بند ہو اور نشہ فروخت کرنے والوں پر کارروائی ہو۔ اس کے علاوہ میڈیکل والوں سے گذارش کریں کہ وہ اپنے میڈیکل پر سی سی ٹی کیمرہ لگائے یا پھر میڈیکل آفیسر سے رابطہ کرکے اس بات کو لازمی بنائے۔
اب سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ جو نشے کے عادی ہوچکے ہیں انہیں اس عادت سے چھٹکارا کیسے ملے گا ؟ سروے کرکے۔ مختلف ذرائع سے معلومات حاصل کرکے نشے کے عادی افراد سے ملاقات کی جائے۔ اس کے لئے ماہرین نفسیات کی ایک ٹیم بنائی جائے تاکہ وہ ان افراد کی نفسیاتی طور سے کانسلنگ کرے۔ ڈاکٹر حضرات کی ایک ٹیم تشکیل دی جائے جو ضروری ادویات اور ان کا علاج کر سکے۔ نشے کے عادی افراد سے نشہ چھڑانے کے لئے انہیں مسلسل نشے سے دور رکھنا، نفسیاتی طور سے کانسلنگ کرنا اور مخصوص ورزش کرانا بہت ضروری ہوتا ہے۔ جس کے لئے ری ہیبیلیشن سینٹر کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ایسے سینٹر مالیگاؤں میں نہیں ہیں۔ ممبئی، پنویل، پونہ اور دیگر بڑے شہروں میں مختلف این جی او کے زیر اہتمام ایسے سینٹر چلتے ہیں جہاں مفت میں نشے کے عادی افراد کی مکمل دیکھ بھال اور علاج کیا جاتا ہے۔ انہیں وہاں بھیج سکتے ہیں۔ اگر اس طرح کام کیا جائے تو شاید بہت جلد معاملات قابو میں آسکتے ہیں۔ شہر میں بڑھتے ہوئے جرائم کے پیچھے سب سے بڑی وجہ نشہ ہی ہے۔ گھروں کے اجڑنے اور رشتوں کی کے خراب ہونے کی وجہ بھی نشہ ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ جلسہ جلوس ، ریلی ، بائنر و پوسٹر پر بے جا خرچ کے بجائے زمینی سطح پر خلوص و اللہ کی رضا کے لئے کام کیا جائے۔
اب بھی موقع ہے اندھیروں کا کرو کوئی علاج
ورنہ یہ نسل اجالوں کو ترس جائے گی
🔴نوٹ: اس تحریر سے کسی بھی طرح کی چھیڑ چھاڑ کرنے والے پر قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے🔴