از قلم: عمران راشد
9860477278
تاریخ کے سنہرے اوراق پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ملک ہندوستان پر انگریزوں کا ناجائز قبضہ تھا۔ عوام اپنے ہی ملک میں غلام بنالئے گئے تھے۔ انگریز من مانی طور پر استحصالی حکومت کررہے تھے۔ ہمارے اکابرین اور غیور نوجوان یہ سب کیسے برداشت کرسکتے تھے۔ وہ ملک کو آزادی دلانے کے لئے تیار ہوگئے۔ قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے کے لئے نکل پڑے، کالے پانی کی سزا کا کرب جھیلنے کے لئے تیار ہوگئے۔ انگریزوں کی لاٹھیوں اور گولیوں سے اپنے سینے کو چھلنی کرلیا۔ دار و رسن کو لبیک کہا۔ جوانی کو قربان ،بیوی کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کردیا۔ تاکہ ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوجائے۔ کہیں سے انقلاب زندآباد کا نعرہ گونجا تو کہیں سے بھارت چھوڑ دو تحریک کا آغاز ہوا۔ بالآخر 15 اگست 1947 کو ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا۔ لیکن اس آزادی کے لئے ہمارے آبا و اجداد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ زمین نے ان کے مقدس لہو سے وضو کیا۔ تب کہیں جاکر آزادی کا سورج طلوع ہوا۔ 1799 کی جنگ آزادی سے لیکر 1921 کی تحریک خلافت تک ہمارے اکابرین کو، علماء کرام کو کبھی غدر تو کبھی بغاوت کے نام پر ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔ ہمارے آبا و اجداد ہی تھے کہ جن کی لاشیں دہلی سے لاہور تک راستوں کے دونوں جانب لٹکائی گئی۔ وہ علماء کرام ہی تھے کہ جن کے لہو سے شاملی کا میدانِ جنگ سرخ ہوگیا تھا۔ مولانا محمد علی جوہر کی قربانیوں کو کون فراموش کرسکتا ہے کہ آپ قید میں ہیں آپ تک خبر پہنچتی ہے کہ آپ کی بیٹی اللہ کو پیاری ہوگئی۔ مولانا کلیجے پر پتھر رکھ کر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔
82 سالہ بزرگ بہادر شاہ ظفر کی وطن سے محبت کی نذیر ملنا مشکل ہے۔ کہ انتہائی ضعیفی کے عالم میں بھی انگریزوں کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔ جس کے سبب بہادر شاہ ظفر پر مقدمہ چلاتے ہوئے جلا وطنی کی سزا سنادی گئی۔ جلا وطنی کے دوران انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہوئے بھی بہادر شاہ ظفر کا وطن سے سچی محبت کا جذبہ کم نہ ہوا۔ اس دوران انہوں نے کہا تھا
کتنا ہے بد نصیب ظفرؔ دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
اشفاق اللہ خان کی قربانیوں کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ جس وقت اشفاق اللہ خان سے پھانسی سے قبل آخری خواہش پوچھی گئی تو آپ نے کہا تھا
کچھ آرزو نہیں ہے بس اتنی آرزو ہے
رکھ دے ذرا سی کوئی خاکِ وطن کفن میں
ہمارے آبا و اجداد نے، علماء کرام نے اس دیش کی آزادی کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔ انگریزوں کے خلاف قلمی جنگ چھیڑتے ہوئے اردو صحافت و اردو اخبار کی بنیاد بھی ڈالی۔جس کے نتیجے میں دہلی اردو اخبار کے ایڈیٹر مولوی محمد باقر کو انگریزوں نے توپ کے دہانے پر رکھ کر شہید کردیا۔ مولانا ابو الکلام آزاد کے الہلال اور البلاغ کی قلمی جنگ کو بھی کوئی ٹھکرا نہیں سکتا۔
ٹیپو سلطان، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، خان عبد الغفار خان، ویر حمید ، بہادر شاہ ظفر، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا محمود الحسن، مولانا احمد اللہ شیوہاروی، یوسف مہر علی، مولانا مظہر الحق، عبد الحافظ محمد برکت اللہ، مولوی احمد اللہ شاہ، ارونہ آصف علی، اللہ بخش سمرو، اصف علی، شاہ نواز خان، عبد المجید دریا آبادی، بدرالدین طیب جی، مغفور احمد اعزازی ، ذاکر حسین، مولوی علاوالدین ، سید میر نثار علی، پیر علی، عنایت اللہ خان، سر سید احمد خان اور حکیم اجمل خان وغیرہ کی قربانیاں تاریخ کے سنہرے اوراق پر آج بھی موجود ہیں۔
لیکن افسوس کہ پھر بھی ہم پر انگلی اٹھائی جاتی ہے۔ ہم سے ہماری وفا داریوں کا ثبوت مانگا جاتا ہے۔ تاریخ گواہ کہ جتنا ہم نے خون بہایا ہے اوروں کا اتنا پسینہ بھی نہیں بہا۔
ہمارے اسلاف نے مصلحت کے نام پر ظالموں کے آگے ہاتھ نہیں جوڑے۔ بلکہ آخری وقت میں بھی دل میں وطن کی محبت جوش مارتی رہی۔
کبھی گاندھی کبھی اشفاق اور سلطان لکھ دینا
ہماری آبا و اجداد سے پہچان لکھ دینا
ہمیں القاب و شجرہ کی ضرورت ہی نہیں عمران
ہماری قبر کی مٹی پہ ہندوستان لکھ دینا
مہاتما گاندھی، بھگت سنگھ، جواہر لال نہرو وغیرہ کی قربانیوں کو تو ہر کوئی جانتا ہے ۔لیکن افسوس کہ ہمارے اسلاف ہمارے آبا و اجداد کی یہ قربانیاں ہم کو یاد نہیں۔
اے خاک وطن اب تو وفاؤں کا صلہ دے
میں ٹوٹتی سانسوں کی صلیبوں پہ کھڑا ہوں
یوم آزادی کے اس موقع پر موجودہ حالات دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہمارے اسلاف نے آزادی کے جو خواب دیکھے تھے اسے فراموش کردیا گیا۔ اس آزاد فضاء میں آج بھی گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ تعلیم سے لیکر تعمیر تک ہم مجبور نظر آتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک مخصوص طبقہ اس ملک کے عوام کو انگلیوں پر نچارہا ہے۔ پھر چاہے وہ ملکی حالات ہوں یا ہمارے اپنے شہر کے مسائل۔
گھر گھر ترنگا تو پہچایا جارہا ہے لیکن روٹی اور روزگار نہیں۔ گورے انگریزوں نے سونے کی چڑیا کے صرف پر نوچے تھے لیکن کالے انگریزوں نے تباہ و برباد کردیا۔
آزادی کا 75 سالہ جشن منایا جارہا ہے لیکن اس جشن کے پس پشت نہ جانے کتنی آہ بکائیں ہیں۔ نہ جانے کتنے خواب چکنا چور ہورہے ہیں۔ نہ جانے کتنی امیدیں ٹوٹ رہی ہیں۔
ہمارے اسلاف نے اتحاد و سالمیت ، محبت و بھائی چارگی، تعمیر و ترقی کے جو خواب دیکھے تھے اسے پیروں تلے روند دیا گیا۔ ملک میں ہر طرف نفسا نفسی کا ماحول ہے۔ ذات پات، مذہب ، رنگ و نسل کی آگ دھکائی جارہی ہے اور نشانہ بن رہی ہیں ملک کی بھولی بھالی عوام ۔
آزادی کا جشن صرف یہ نہیں کہ ہر گھر ترنگا لہرایا دیا جائے بلکہ حقیقی جشن تو وہ ہے جس کے خواب ہمارے اسلاف نے دیکھے تھے۔ بھکمری، بے روزگاری سے آزادی۔ ذات پات، رنگ و نسل اور مذہبی منافرت سے پرے اس ملک کو تعلیمی و تعمیری اعتبار سے خود مختار اور مضبوط بنانا۔ اور ملک کے عوام کو بنیادی حقوق فراہم کرنا ہی آزادی کا حقیقی جشن ہے۔