Advertising

ہندو مسلم نفرت کی کچھ حقیقتیں

Hum Bharat
Saturday 14 May 2022
Last Updated 2022-05-14T12:34:02Z
Premium By Raushan Design With Shroff Templates

آر ایس ایس نے تقریباً پچھلے سو سالوں میں جس طرح بھارت میں زہر کا بیج بویا ہے اس کی لہلہاتی کانٹوں دار فصل اب کاٹ رہی ہے۔ یہ پوری مہم صرف جھوٹ پر مبنی تاریخ کے حوالے سے چلائی گئی اور جذبات کی کھیتی میں یہ بیج ڈال کر فسادات کے ذریعے اس کی آبیاری کی گئی ۔ آج حالات ہمارے سامنے ہیں۔



ہماری مشکلات یہ ہیں کہ ہم ان جھوٹی تاریخ کے رد کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ ہمیں خود حقیقی تاریخ کا علم نہیں ہے کہ ہزار سالوں کی ہندوستانی تاریخ پر ہی کچھ نظر کرتے۔ جس طرح آر ایس ایس اپنی سوچ پھیلاتی گئی ہم اس پر کسی نہ کسی حد تک ایمان لاتے چلے گئے۔ ہمیں یہ بھی نہیں پتہ کہ اس وقت حکومتوں کے کام کاج کس طرح ہوا کرتے تھے۔ ہم پڑھتے تو تاریخ ہیں لیکن عینک حال کی لگی ہوتی ہے۔ حالانکہ اس وقت اور آج کے طرز میں زمین آسمان کا فرق تھا۔

آر ایس ایس کے پاس ایک بڑا ہتھیار تاریخ سے یہ ہے کہ مسلمانوں نے بھارت پر حکمرانی کی۔ اس حقیقت سے اس نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور ہندوؤں کو یہ ورغلایا کہ دیکھو مسلمانوں نے ہندوؤں پر حکومت کی یعنی تمہیں غلام بنا لیا۔ واقعات میں کچھ جھوٹ کا اضافہ کیا اور کچھ واقعات من گھڑت بھی ملا کر زہر کا انجکشن ہندو قوم کو دیا جانے لگا۔ اس کام کو پہلے ڈھکے چھپے انداز میں کیا گیا۔ جب ان زہریلے ناگوں کی بڑی تعداد حکومت میں بھیس بدل کر شامل ہو گئی اور اندر سے پکڑ مضبوط کرلی تو پھر یہ کام کھلے طور پر ہونے لگا۔ اسکولوں میں پڑھاۓ جانے والے نصاب میں یہ سب شامل کرلیا گیا۔ ایسی تاریخ جس میں بابر کو حملہ آور بتایا گیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ بابر نے کس کے بلانے پر اور کس پر حملہ کیا تھا ؟ آگے یہ بھی بتانے کی زحمت نہیں کی گئی کہ ان حملہ آور بادشاہوں نے کس کے ذریعے اکھنڈ بھارت پر حکمرانی کی۔ وہ کون سے راجہ رجواڑے تھے جو ایک مرکزی حکومت کے تحت بھارت میں راج کر رہے تھے۔ سنگھ نے ایسی تاریخ گھڑی جس میں اورنگزیب ظالم کو اور ہندوؤں کو تلوار کی نوک پر کلمہ پڑھوانے والا ، ہندوؤں کو قتل کرنے اور مندروں کو ڈھانے والا بنا کر پیش کیا گیا۔ دو بادشاہوں یا راجاؤں کی لڑائی اگر اس میں ایک ہندو دوسرا مسلمان ہے تو اسے ہندو مت اور اسلام کی لڑائی بتایا گیا وغیرہ۔

اس سارے نفرتی لٹریچر کے درمیان کچھ حق پرست مورخین اور اسکالرز  اس جھوٹ کے رد میں میدان میں آئے اور حقیقت سے پردے بھی اٹھانے کی کوشش کی لیکن زہر اتنا پھیل چکا ہے کہ ان کی کوششیں بھی زیادہ اثر انداز نہیں ہو رہی ہیں۔ جب اسکولی نصاب میں ہی بچوں کے ذہن میں زہر بھر دیا جائے تو اس کے اثرات کیسے جلد زائل ہو سکتے ہیں۔

   

اورنگزیب کے بارے میں سب سے زیادہ زہر بھرا گیا ہے جس کا اثر یہ ہے کہ غیر متعصب ہندو دانشور اور صحافی بھی ان کو ظالم ، مندروں کو توڑنے والا ہی سمجھتے ہیں حالانکہ اورنگزیب کے زمانے کے دستاویزات سے انکشاف ہوتا ہے کہ انہوں نے بہت سے مندروں کو زمینیں، جاگیریں اور وظیفے عطا کیے جو ایک غیر جانبدار حکمران کا فرض ہے۔

اسی طرح یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ ہندو راجاؤں سے مسلم بادشاہوں نے جو جنگ کی وہ اسلام اور ہندو مت کی جنگ تھی اور اس حقیقت کو چھپا دیا کہ وہ جنگیں کس کی قیادت میں لڑی گئیں۔ بہت مشہور بات ہے کہ شیواجی مہاراج کا سپہ سالار مسلم تھا اور اورنگزیب کا ہندو۔ اکبر کی طرف سے مان سنگھ تو رانا پرتاپ کی طرف سے حکیم خان سپہ سالار تھے۔ یہاں ان حملہ آوروں کا ذکر نہیں ہے جو کسی کے بلانے پر مدد کے لئے آۓ اور کام مکمل کر کے چلے گئے جیسے کہ محمود غزنوی اگرچہ مدد کے لئے بلانے والے ہندو تھے۔ انہیں تو آر ایس ایس نے لٹیرا بنا کر پیش کیا ہے۔ یہاں ان حملہ آوروں کا ذکر ہے جو امن و امان قائم کرکے مستقل طور پر یہاں کے حکمران بن گئے اور خانہ جنگی کو ختم کر دیا۔


     یہاں میں ایک اور خاص بات بتانے جا رہا ہوں جو شائد ہی کم لوگوں کو پتہ ہو۔ تقریباً بیس سال پہلے بھارت کے ایک نواب کے پڑپوتے سے ہماری ملاقات ہوئی تھی۔ ہم چونکہ ان کے پردادا کی کوٹھی میں ٹھہرے ہوئے تھے تو وہ ہم سے بطور خاص ملاقات کرنے تشریف لائے تھے۔ انہوں نے نواب صاحب کی تاریخ بیان کی اور ان کے کاروبار پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے پردادا بھارت کے راجاؤں اور بادشاہوں کو فوجی سپلائی کرتے تھے۔ افغانستان سے لڑاکو منگواتے تھے اور جس راجہ کو بھی جتنے فوجی کی ضرورت ہوتی تھی اسے اتنے فراہم کرتے جس کی انہیں اچھی اجرت ملتی۔

     یہی ہے وہ سوچنے کا مقام۔ نواب صاحب کے لڑاکو یہ نہیں تھا کہ مسلم حکمرانوں کو ہی اجرت پر ملیں ۔ بلکہ چاہے ہندو راجہ ہو یا مسلم بادشاہ ان کی خدمات سب کے لئے تھیں۔ وہ صرف معاوضہ پر لڑائی لڑتے تھے۔ آج جس کی طرف سے لڑ رہے ہیں یہ بھی ممکن تھا کہ کبھی اس کے خلاف بھی لڑیں۔ ان کو معاوضہ سے غرض تھی نہ کہ کسی خاص حکومت سے۔ ان کی خدمات عام تھیں۔

     یہ ہے حکمرانوں کی جنگوں کی حقیقت۔ جنھیں اس پر یقین نہ ہو آج بھی ان کے وارث زندہ ہیں ان سے دریافت کر سکتے ہیں۔

     کیا یہ جو افغانستان سے لڑاکو آتے تھے یہ ہندو تھے یا وہ نواب ہندو تھے ؟ یا نواب صاحب صرف مسلمانوں کو فوجی سپلائی کرتے تھے ؟ ان سب کا جواب نفی میں ہے۔ نواب بھی مسلمان تھے ان کے لڑاکو بھی مسلمان لیکن خدمات جو لینا چاہے اور جو اچھی اجرت دے۔ یہاں کہاں ہندو مسلم والی بات آتی ہے ؟ یہاں تو صرف اپنے تخت و تاج کی حفاظت کا سوال تھا لیکن آر ایس ایس نے بڑی کمال ہوشیاری سے اسے ہندو مسلم تنازعہ کی شکل میں پیش کیا اور سیدھی سادی عوام ان کے جھانسے میں آ گئی۔

     تاریخ کے حوالے سے دیکھا جائے تو آج سے صرف پچھتر سال پہلے تک حکومت وہی کرتا تھا جو فوجی طاقت سے اسے حاصل کر پاتا۔ ساری دنیا میں یہی دستور رائج تھا۔ چاہے وہ سکندر اور پورس کی لڑائی ہو یا خسرو پرویز کسریٰ اور ہرقل قیصر روم کی۔ بھارت پر مسلم حملہ آوروں کی حکومت ہو یا فرانسیسی اور برطانوی حکومت سب کی سب فوجی طاقت سے حاصل ہوئی تھیں۔ جو فتح یاب ہوا وہی حاکم بنا۔ سندھ پر محمد بن قاسم نے بھی اپنی حکومت کے باغیوں کی سرکوبی کے لئے حملہ کیا تھا جنہیں راجہ داہر نے پناہ دی تھی۔ یہاں ہندو مسلم کا کوئی سوال نہیں تھا جو کچھ تھا وہ صرف اپنی حکمرانی کے لئے۔ بعد کے ادوار میں انتخابی سیاست نے جنم لیا حالانکہ اب بھی جہاں طاقت سے حکومت حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے حاصل کر لی جاتی ہے اس کی واضح مثال اسرائیل کا ناپاک قیام ہے۔ جمہوری سیاسی نظام کا حال بھی سامنے ہے کہ کس طرح عوام کی رائے کو قدموں تلے روند کر موقع پرستی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور کس طرح عوامی نمائندے خود کو بیچ دیتے ہیں اس وقت ان ضمیر فروشوں کے سامنے صرف ان کا اپنا مفاد ہوتا ہے اور کروڑوں روپے لے کر ظالم، ناکارہ اور بدعنوان لوگوں کو حمایت دے دی جاتی ہے۔ یہاں کب کس کو اپنے مذہب اور مذہبی بھائیوں کی خیرخواہی مقصود ہے لیکن اس کا نام ہندو مسلم لڑائی بنا کر عوام کو دھوکا دے دیا جاتا ہے اور عیش ان بے ضمیروں کے حصے میں آتا ہے موت اور تکلیف عوام کی قسمت ہوتی ہے۔ مہنگائی سے عوام جوجھتی ہے ان کو تو تا حیات پنشن اور دیگر مراعات حاصل ہوتی ہیں مہنگائی چاہے ساتویں آسمان تک پہنچ جائے انہیں تو ہر شے مراعاتی داموں میں دستیاب ہیں۔ پیٹرول پانچ سو روپے لیٹر ہو جائے انہیں تو مفت مل رہا ہے۔

     ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کے ذہنوں میں ان حقائق کو اجاگر کیا جائے اور یہ کام تحریکی پیمانے پر ہو۔ اس میں ہر انصاف پسند کو شامل کیا جائے اور ہندوستان کے آخری کونے تک اس قسم کی جتنی بھی حقیقتیں ہیں انہیں وہاں تک پہنچایا جائے تاکہ زہر کا اثر کچھ تو کم ہو۔ اگلی نسلوں تک تو اس کی رسائی ہو ورنہ آئندہ نسلیں مسلمانوں کو صرف راکشش کے طور پر ہی پہچانیں گی اور مسلمان اس کو قبول کر کے جینے پر مجبور ہوگا۔


مرزا انور بیگ

27 اپریل 2022

iklan
Comments
Commentsyang tampil sepenuhnya tanggung jawab komentator seperti yang diatur UU ITE
  • Stars Rally to Beat Predators in Winter Classic at Cotton Bowl