عورتوں کا احترام کرنا یہ نہ صرف مذہبی نظریہ ہے بلکہ انسانی نظریہ بھی ہے۔ اسے احترام کبھی ماں کے روپ میں دیا جاتا ہے تو کبھی بیٹی کے، کبھی بہن تو کبھی بیوی کے۔ واقعات بتاتے ہیں کہ عورتوں کی عصمت بچانے کے لئے غیور مردوں نے اپنی جان کی بازی لگا دی ہے۔ مغرب جہاں سے عورتوں کی آزادی کے نام پر عورتوں کا استحصال شروع ہوا وہاں بھی عورتوں کے احترام کے لئے ایک طبقہ ہمیشہ سے متحرک رہا اور اس بے راہ آزادی کے خلاف رہا۔ وہاں بھی عورتوں کے سروں پر اسکارف نظر آتے ہیں۔ تمام مذاہب کی راہباؤں کے سر ڈھکے ہوئے ملتے ہیں۔ ہندو سماج میں بھی عورتیں ساڑی کے پلو سے گھونگھٹ نکالتی ہیں اور اپنے بڑے بزرگوں کے سامنے بے پردہ نہیں آتیں۔ لیکن عورتوں کی حفاظت اور ترقی کا دعویٰ کرنے والی بھگوا بریگیڈ مسلمان لڑکیوں کو حجاب میں دیکھنا پسند نہیں کرتی۔ اور سب سے بڑی نامردی تو یہ ہے کہ باحجاب بچیوں پر اوباش طلباء کو جے شری رام کا نعرہ لگوا کر شرانگیزی کرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کیا یہی ان کی تہذیب ہے؟ آخر یہ کس قسم کا بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ مہم ہے کہ جہاں بیٹی ننگی بھوکی نظروں سے بچنے کے لئے حجاب پہنتی ہے اور اس حفاظتی ڈھال کے ساتھ پڑھنے جاتی ہے تو نہ اسے بھگوا بریگیڈ سے بچایا جاتا ہے اور نہ پڑھنے دیا جاتا ہے بلکہ اس پر بھوکے بھیڑیے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔
یہ ہے عورتوں کے احترام کا اصلی بھگوائی چہرہ۔ میں پوچھتا ہوں کہ یہ تمام نوجوان کیا اپنی بہنوں کو انڈر گارمنٹس کے ساتھ اسکول اور کالج بھیجنے پر راضی ہوں گے ؟
مرزا انور بیگ
میرا روڈ۔
۹ فروری ۲۰۲۲