#صنم_کدہ_ہےجہاں__لا_الٰه_الاالله
" کرناٹک میں حجابی بچیوں پر فرعون کے پہرے "
اس خبر کو اب ۱ مہینے ہورہےہیں کہ، کرناٹک میں اڈپی کے ایک کالج میں مسلمان بچیوں کو باحجاب ہونے کی وجہ سے کالج انتظامیہ نے سسپینڈ کررکھا ہے، ہماری وہ بچیاں ایک مہینے سے اپنی کلاسز سے باہر کبھی اسکول کے زینوں پر تو کبھی کالج کے صدر دروازے پر سراپا احتجاج بنی ہوئی ہیں اور اپنے باعزت حقِ زیست کو حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں، ہماری یہ بہنیں موجودہ بھارت میں مسلم خواتین کے لیے خولہ اور سمیہ کا ماڈل پیش کررہی ہیں وہیں عالمِ اسلام کے لیے مزاحمت اور جدوجہد کےذریعے باعزت بنے رہنے کا استعارہ بن چکی ہیں، سلام ہے ان کی جدوجہد کو، عقیدت و عظمت انہی بہادر بچیوں کا حصہ ہے_
لیکن ذرا سوچیے کہ، دنیا کہ سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والی ایک ریاست میں ۱ مہینے سے یہ مسلمان لڑکیاں کالج سے محض اس لیے برخاست کی گئی ہیں کہ وہ باحجاب ہیں، یہ خبر پوری دنیا میں پھیل چکی ہے، لیکن نہ تو کانسٹی ٹیوشن کے رکھوالوں کو برائے نام ہی شرم آئی نہ ہی حقِ آزادی اور سیکولرزم کی ضمانت و دہائی دینے والے اس سسٹم کا ضمیر جاگا، وزراء اعلیٰ سے لے کر وزیراعظم تک اور تعلیمی انتظامیہ سے لے کر انصاف کے اداروں تک میں سناٹا ہے اتنی کھلی ہوئی بےشرمی پر نہ تو وزیراعظم نوٹس لے رہا ہے نہ ہی عدالتوں نے مداخلت کی،
فریڈم آف چوائس کے تحت آدھے ادھورے لباس پہننے کا نعرہ لگانے والا لبرلزم اور فیمنزم بھی اپنی خاموشی سے بےنقاب ہے وہ حجاب پہننے کو فریڈم آف چوائس کے زمرے میں نہیں رکھتے ہاں اگر ابھی کسی خاتون سے سر ڈھکنے کے لیے کہہ دیا جاتا تو عورتوں کی آزادی پر حملے کا واویلا کرتے یہ لبرل دنیا دھاڑیں مارتی نظر آتیں، یہ تماشا مسلسل جاری ہے،
دراصل آئین کا ہندوتوا کرن ہورہاہے اور ابھی اسلاموفوبیا کے ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات کے ذریعے آنے والے دنوں میں برہمنی ہندوراشٹر کے آئینی اور ادارہ جاتی اسلاموفوبیا کو نارمل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ماب لنچنگ کے ذریعے مسلمانوں کے قتل اور دھر سنسدوں کے ذریعے مسلمانوں کے قتل عام کے نعروں سے اجنبیت نکالنے کی طرح ڈالی گئی اور حجاب و نمازوں پر جابجا رکاوٹ کھڑی کرکے پریکٹیکل اسلام اور مسلم شعائر کو عوامی سطح پر منافرت کی شناخت دینے کی کوشش کی جارہی ہے
جن کو لگتاہے کہ بھارت ہندوراشٹر نہیں بن سکتا ہے وہ بڑے دھوکے میں ہیں ہندوراشٹر کا سنگِ بنیاد 1947 میں رکھ دیا گیا تھا البتہ اس کا ادارہ جاتی آئینی کرن اب ہورہا ہے،
ہندوستان میں مسلمانوں کو سیکولر ازم اور گنگا جمنا کے نام پر کسی بھی دھوکے میں رکھنے والے دوسروں سے زیادہ خود کے بدخواہ ہیں، ایک بڑی آزمائش اور صبر آزما جدوجہد مسلمانوں کی منتظر ہے، آزمائش کرناٹک کا سَنگھی کالج ہے اور جدوجہد ہماری بچیاں، ڈیموکریسی کو جب شرک کی لونڈی بنایا جائےگا تو اس کشمکش کے بطن سے توحید کی کرنیں پھوٹیں گی، فتح اللہ اور اس کے رسول کی ہوگی، ہندوستان سمیت دنیا بھر میں شیطانی کارندوں نے یہ ایسا وقت لانے کی کوشش کی ہے جب ایشوز اور مسائل سے لے کر انٹلکچوئل مذاکرات میں بھی اسلامی اصولوں اور الہی وعدوں کے زاویے سے گفتگو کرنے کو کٹر پنتھی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن مطمئن وہی ہوں گے جو ہرحال میں اسلام کی کسی بھی تعلیم اور مسلمانی کے ادنیٰ شعار سے بھی دستبردار نہیں ہوں گے وہ ایسے مطمئن نفوس ہوں گے کہ ہزاروں شہداء ان پر فخر کریں گے، رسول اللہﷺ کے فرمان کے مطابق:
من احیاء سنتی / من تمسك بسنتى عند فساد امتی فله أجر مائة شهيد
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں، لا الٰہ الا اللہ،
لا الٰہ الا اللہ
✍: سمیع اللہ خان