کسانوں کی تحریک اور قربانیوں کا مرکزی حکومت پر باالآخر اثر ہوہی گیا۔ کسانوں نے اپنے احتجاج کے ذریعے حکومت کو جھکنے پر مجبور کردیا۔
وزیر اعظم کی جانب سے کالے زرعی قوانین واپس و رد کرنے کا اعلان کیا گیا۔ لیکن کسانوں نے صاف طور سے کہہ دیا کہ منہ زبانی نہیں چلے گا۔ جب تک کاغذی کاروائی کے ذریعے قانونی طریقے سے یہ قانون رد نہیں ہوگا تب تک وہ احتجاج جاری رکھیں گے۔
مرکزی حکومت کے مہربان وزیر اعظم نے بالآخر ایک سالہ تحریک اور چھ سو کسانوں کی جان کے نذرانے اور بے انتہا بدنامیوں کے الزامات کے بعد تحفے میں کسانوں کے خلاف بناۓ گئے تینوں کالے قوانین کو واپس لے لیا ہے اس طرح ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ بات بھی ٹھیک اسی طرح ہے جیسے ضمنی انتخابات میں ہار کے بعد پیٹرول ڈیزل پر بڑھائی گئی بے انتہا قیمت میں سے پانچ دس روپے کم کرکے قوم پر احسان جتایا گیا۔
یہاں پہلے تو اپنی طاقت کے زعم میں کالے قوانین چور دروازے سے لاۓ گئے۔ پھر سال بھر کسانوں کو نظر انداز کیا گیا۔ ان پر میڈیا ٹرائل ہوا۔ خالصتانی ہونے کا، غنڈہ موالی اور دیش دروہی ہونے کا الزام لگایا گیا اور یہ الزام کسی چھٹ بھیوں نے نہیں بلکہ مرکزی وزیر اور ممبر آف پارلیمنٹ تک نے لگائے، افسروں نے سر پھوڑنے کے احکامات دیے اور اس پر عمل بھی ہوا جس کے نتیجے میں ایک کسان کی موت (قتل) بھی ہوئی۔ وزیر اعلی کے عہدے پر فائز شخص نے ڈنڈے کا استعمال سکھایا اور وزیر برائے داخلہ امور کے بیٹے نے کسانوں پر گاڑی چڑھا کر ان کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اتنا سب ہونے کے بعد اب اترپردیش کے الیکشن نے اس مدہوش حکومت کی نیند اڑا دی ہے جس میں ایک طرف ہندو مسلم سکھ اور جاٹوں کا اتحاد دوسری طرف پروآنچل میں اکھلیش یادو کے زور نے مجبور کر دیا کہ کسانوں کو رجھایا جاۓ۔ اب یہ کسان لیڈر شپ پر منحصر ہے کہ وہ ان کے جھانسے میں نہ آئیں اور بھاجپا حکومت کو اکھاڑ پھینکنے تک جدوجہد جاری رکھیں۔ یہ سارا کھیل اترپردیش الیکشن کو نظر میں رکھ کر کھیلا گیا ہے جہاں سے پارلیمنٹ کا راستہ جاتا ہے۔ اگر یہ فاشسٹ جماعت اترپردیش میں جیت جاتی ہے تو پھر سے مرکز میں مودی کا آنا طے ہے اور اس کے بعد ممکن ہے کہ دوبارہ کچھ ردوبدل کے ساتھ یہی کالے قوانین نافذ کر دیے جائیں اور اس وقت پھر کسانوں کے اندر وہ طاقت باقی نہیں رہے گی جو آج ہے۔ اس لئے اس فتنہ کے کلی خاتمہ تک کسان تدبر سے کام لے کر اس اتحاد کو قائم رکھیں جسے توڑنے کی بھی یہ مرکز کی کوشش ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ تو مسلسل مظفر نگر اور کیرانہ کے فساد یاد دلا دلا کر ہندوؤں، جاٹوں اور سکھوں کو ورغلا رہے ہیں۔ شمال مشرقی اترپردیش میں ان کی یہ سازش ناکام بنانے کی ذمہ داری اب کسانوں کے سر ہے۔
مرزا انور بیگ
میرا روڈ۔ تھانہ