#جوہر_یونیورسٹی_کا_دروازہ_توڑنے_کا_حکم
کیا یہ خبر آپ کی نظروں سے گزری؟ کہ رام پور کی عدالت نے اعظم خان کے ذریعے تعمیر کردہ عظیم الشان محمد علی جوہر یونیورسٹی کا صدر دروازہ توڑنے کا فرمان جاری کردیا ہے
مجاہد آزادی محمد علی جوہر کی طرف منسوب اس یونیورسٹی کے خلاف مقدمہ بھاجپا نیتا آکاش کی طرف سے کیا گیا ہے، اسی سلسلے میں فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے محمد علی جوہر یونیورسٹی کا دروازہ توڑنے کا فیصلہ دیا ہے، کیونکہ بھاجپا نیتا کے ایڈمنسٹریشن کا الزام ہےکہ یونیورسٹی کا دروازہ غیرقانونی ہے اور قبضے پر ہے
اعظم خان کو جیل میں ڈال کر ان کی صحت کو تشویشناک حالت میں پہنچایا گیا اور پھر ان کے ذریعے قائم کردہ ایک اسلامی ٹچ رکھنے والی زبردست یونیورسٹی پر چھاپے ایسے مارے گئے گویاکہ وہ دانش گاہ نہ ہو بلکہ کوئی کوٹھا ہو یا جرائم کا اڈہ، اور اب عدالت اس یونیورسٹی کے دروازہ توڑنے کا فرمان جاری کررہی ہے، جس ملک کی عدالتوں کا یہ معیار ہوگیا ہو کہ وہ ایک یونیورسٹی کا دروازہ توڑنے کے فیصلے صرف اس لیے سنا رہی ہےکہ اس کا بانی مسلمان ہے اور اس کی نسبت بھئ ایک مسلمان قومی ہیرو کی طرف، سوچیے جہاں کے سسٹم میں تعلیمی دانشگاہوں کے تئیں ایسا رجحان پنپ رہا ہوں وہاں ایجوکیشن اسٹرکچر کا کیا حال ہوگا؟ اور تعلیم کی کیا قدر و ترقی ہوگی؟
ویسے تعجب کیوں کریں؟ کہ جس بھارت کی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کو توڑنے والے ہندوتوا مجرموں کو پناہ دے کر غیرقانونی رام مندر کا راستہ صاف کیا ہو اُس بھارت کی ذیلی عدالتیں اگر محمد علی جوہر یونیورسٹی پر بلڈوزر چلوانے کا ارادہ نہیں کریں گی تو اور کیا کریں گی؟*
بہت تکلیف ہے ہمیں اعظم خان کی قابلِ رحم حالت پر، اور عدالت کے اس حکمنامے سے واقعی اذیت پہنچی ہے،
۲ سے تین سالوں پہلے جب اعظم خان گرفتار بھی نہیں ہوئے تھے اور یوگی کے راون راجیہ میں جوہر یونیورسٹی پر شکنجہ کسنے کا آغاز ہی ہوا تھا، تبھی ہم نے بھارتی مسلمانوں کے سیاسی و ملی قائدین، اور اہلِ تعلیم کو پکارا تھا کہ سیاسی وابستگیوں اور آپسی اختلافات سے اوپر اٹھ کر اس معاملے کو سنبھالیں، اعظم خان سے مجھے بھی اختلافات رہےہیں لیکن ان کی لیڈری کی افادیت کا میں نے مشاہدہ بھی کیا ہے، جب یوگی، مودی اور امیت شاہ نے ان پر متحدہ کریک ڈاؤن کیا تب سے میں نے کئی سارے مضامین اخبارات میں دیے تاکہ ان کےحق میں انصاف کی فضا بن سکے، مگر سبھی تماشا دیکھتے رہے کیونکہ کئی ایک کو اعظم خان سے جھگڑا تھا، وہ لوگ بھی تماشائی ہیں جو دن رات رونا پیٹنا کرتےہیں کہ آزادی کےبعد سے مسلمانوں کے پاس دانشگاه یا یونیورسٹی کی صورت میں اضافہ نہیں ہوا، کوئی بات نہیں آپ لوگ تماشائی بنے رہیں اپنے ایک حریف کے انجام پر مطمئن رہیے، لیکن ہرگز مت بھولنا کہ اعظم خان کو مسلمانوں کی ایک باوقار آواز ہونے کی بھی سزا مل رہی ہے، محمد علی جوہر یونیورسٹی بنانے کی بھی سزا مل رہی ہے، اعظم خان کی گرفتاری کےبعد ہم نے ان سے اپنے اختلافات بالائے طاق رکھ دیے کیونکہ ان کی علم دوستی جاہل حکمرانوں میں ان کےخلاف کٹّر دشمنی کا سبب بن گئی، ہر پارٹی میں جتنے بھی ایسے مضبوط مسلمان ہوں گے ان کےساتھ برہمنی ہندوتوا کا شیطانی اقتدار یہی سلوک کرے گا، احسان جعفری سے اعظم خان تک مسلم لیڈرشپ کی بے حسی میں عبرت ہی عبرت ہے _
✍: سمیع اللّٰہ خان