۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم۔شفیق احمد قاسمی محمد آبادی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس قسم کے میسیج اور وائیرل ویڈیوز سوشل میڈیا پر گاہے بگاہے ہنگامہ کھڑا کرتے رہتے ہیں
ایک سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ وہ خواتین اسلام جن صورتیں دیکھنے کو آسمان ترستا تھا جن کی ایک جھلک پانے کو سورج بےتاب رہتا تھا جن پردگی کا یہ عالم تھا کہ ہوائیں ان جسم کو چھونے سے عاجز تھیں انھیں باپردہ عفت مآب اور حیا اور پاکدامنی کی دیویوں کا آج یہ عالم کیسے ہوگیا کہ عفت و عصمت حیا اور پاکدامنی کی چادر پھاڑ کر سرعام ناچ رہی ہیں اپنے حسن کے جلوے بکھیر رہی ہیں اپنے جسم سے لطف اندوز کرنے کے لئے خود کو سب کے سامنے پیش کر رہی ہیں گویا ان کی حیثیت ایک شاہ راہ عام کی سی ہے جس پر جو چاہے چلے خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان
یا یہ ایک عمومی دسترخوان ہیں جس پر جو چاہے روٹیاں توڑے اور بوٹیاں نوچے
ان پاکیزہ اور عفت مآب بنات اسلام پر شہوانیت کا ایسا بھوت کیسے سوار ہو گیا کہ انہوں نے اپنی چند لمحوں کی شیطانی شہوت پوری کرنے کے لئے اپنے ماں باپ اپنے خاندان اپنے سماج کی عزت کو اپنے پاؤں تلے روندنے کے ساتھ ساتھ اپنے ایمان اور اپنے عقیدے کو بھی تیاگ کر جہنم کے دائمی عذاب کو بھی قبول کرنے پر تیار ہو گئیں
آخر ایسا انقلاب کیوں کر ہوا اس کی وجوہات کیا ہیں اس کے اسباب وعوامل کیا ہیں ،جب اس موضوع پر گفتگو ہوتی ہے تو اس بحث و مباحثہ کا خلاصہ یہی نکلتا ہے کہ عورتیں اب بازار میں آنے لگی ہیں اور ان کے ہاتھوں میں موبائل آچکا ہے یہی دونوں چیزیں اس فساد کی جڑ ہیں یعنی موجودہ فساد کی وجوہات بس یہی دو تک محدود ہیں،مجھے اس سے کوئی اختلاف نہیں ہے میں بھی ان دو چیزوں کو ان کی بےحیائی کا اہم محرک سمجھتا ہوں مگر میرے نزدیک وجوہات کا دائرہ انہیں دو تک محدود نہیں ہے بلکہ ان وجوہات میں ایک تیسری وجہ بھی شامل ہے جس کی طرف سے نظریں پھیر لی جارہی ہیں وہ وجہ ہم خود ہیں یعنی گھر کے اصل ذمہ دار مرد حضرات خود بگڑ چکے ہیں،
کیا اجنبی عورتوں پر نگاہ ڈالنے سے ہم پرہیز کرتے ہیں،اگر اتفاقا غلطی سے نگاہ پڑ گئی تو فوراً ہم نظریں پھیر لیتے ہیں اور اس نگاہ غلط انداز پر دل ملامت کرتا ہے
کیا اجنبیہ عورتوں یا لڑکیوں سے موبائل فون پر چوری چھپے گفتگو کرنے کو ہم برا سمجھتے ہیں
کیا کبھی کسی لڑکی یا عورت کے فون سے اتفاقی طور پر رابطہ ہوگیا تو فوراً ہم رابطہ منقطع کردیتے ہیں
کیا کسی اجنبیہ کا دل میں تصور آنے کو ہم دل کا زنا سمجھتے ہیں
کیا ہمارے نوجوانوں کے ذہن و دماغ پر شہوت کا بھوت سوار نہیں ہے
کیا یہ رات رات بھر چوری چھپے دوسروں کی بہن بیٹیوں سے فون کے ذریعے زبان اور کان کی زنا کاری میں مشغول نہیں رہتے
ظاہر ہے کہ اس کا جواب آپ کے پاس صرف یہی ہے کہ ہاں یہ تمام برائیاں مسلمان مردوں میں ہیں میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ آج کا ہمارا مسلم نوجوان شیطانی شہوت سے اس قدر پاگل ہو چکا ہے کہ وہ ایک کتا بن چکا ہے اور چیت کے مہینے کے کتوں کی طرح گلی گلی صرف اس لیے گھومتا ہے کہ کہیں کوئی کتیا مل جائے اور اس سے اپنا نشہ پورا کیا جائے
اب آپ غور سے سنیئے
جس سماج کے مردوں کی ذہنی عیاشی و آوارگی کا یہ عالم ہوگا کیا اس سماج کی بیٹیاں اور عورتیں حیا دار پاکدامن اور اپنی عزت و عصمت کی محافظ ہوں گی جب کسی سماج کے مرد کتے بن جائیں تو اس سماج کی عورتیں کتیا تو بنیں گی ہی
ان کا بگاڑ اور فساد مردوں کے فساد اور بگاڑ پر موقوف ہے اگر ہم پاکدامن ہو جائیں تو کیا مجال کہ ہمارے گھر کی عورتیں بےحیائی کے قریب بھی جائیں ،یہ باتیں میرے اپنے ذہن و دماغ کی اپج نہیں ہیں بلکہ اس حقیقت کو ہمارے اور آپ کے اور ساری کائنات کے آخری معلم اور ہادی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے،اٹھائیے معجم کبیرطبرانی جلد ۱۱ صفحہ ۱۷۳ اور مستدرک حاکم۹۸/۱۷ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت ہے جس میں نبی کریم علیہ السلاة والسلام نے فرمایا: ”عفوا تعف نساوٴکم“ ترجمہ: پاک دامن رہو تمھاری عورتیں پاک دامن رہیں گی
اسی حدیث کے مضمون کو حضرت امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنے دیوان میں کچھ اس طرح قلم بند کیا ہے
عفوا تعف نساوٴکم في المحرم وتجنبوا ما لا یلیق بمسلم إن الزنا دین فإن أقرضتہ کان الوفا من أھل بیتک فاعلم
جس کا ترجمہ یہ ہے،،تم پاکدامنی اختیار کرو تمہاری عورتیں حرام کاری سے بچی رہیں گی ،اور ایسے کاموں سے بچو جو کسی مسلمان کی شان کے لائق نہ ہو
بے شک زنا ایک قرض ہے اگر تم نے وہ قرض لے لیا تو جان لو کہ اس کو تمہاری اولاد سے وصولا جائیگا
اس لیے اگر قوم کی بیٹیوں کی ان ناقابل برداشت حرکتوں پر ہمارا دل دکھتا ہے تو اس کے علاج کی آسان صورت یہی ہے کہ قوم کا ہر مرد اپنے خیالات و تصورات کو پاکیزہ بنائے اپنی نگاہ کو پاکیزہ بنائے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اس کے بعد بقیہ سماجی اصلاح کا پروگرام بنائے
شفیق احمد قاسمی محمد آبادی
27 جولائی 2021