Advertising

ستم ایجاد کرتے ہو کرم ایجاد ہوتا ہے: مشہور غزل

Hum Bharat
Friday, 2 July 2021
Last Updated 2021-07-02T18:16:32Z
Premium By Raushan Design With Shroff Templates

   


خوشا بیداد خون حسرت بیداد ہوتا ہے

ستم ایجاد کرتے ہو کرم ایجاد ہوتا ہے


بظاہر کچھ نہیں کہتے مگر ارشاد ہوتا ہے

ہم اس کے ہیں جو ہم پر ہر طرح برباد ہوتا ہے


مرے ناشاد رہنے پر وہ جب ناشاد ہوتا ہے

بتاؤں کیا جو میرا عالم فریاد ہوتا ہے


دل عاشق بھی کیا مجموعۂ اضداد ہوتا ہے

ادھر آباد ہوتا ہے ادھر برباد ہوتا ہے


یہی ہے راز آزادی جہاں تک یاد ہوتا ہے

کہ نظریں قید ہوتی ہیں تو دل آزاد ہوتا ہے


وہ ہر اک واقعہ جو صورت افتاد ہوتا ہے

کبھی پہلے بھی دیکھا تھا کچھ ایسا یاد ہوتا ہے


بڑی مشکل سے پیدا ایک وہ آدم زاد ہوتا ہے

جو خود آزاد جس کا ہر نفس آزاد ہوتا ہے


نگاہیں کیا کہ پہروں دل بھی واقف ہو نہیں سکتا

زبان حسن سے ایسا بھی کچھ ارشاد ہوتا ہے


تمہیں ہو طعنہ زن مجھ پر تمہیں انصاف سے کہہ دو

کوئی اپنی خوشی سے خانماں برباد ہوتا ہے


یہ مانا ننگ پابندی سے کیا آزاد کو مطلب

مگر وہ شرم آزادی سے بھی آزاد ہوتا ہے


تصور میں ہے کچھ ایسا تری تصویر کا عالم

کہ جیسے اب لب نازک سے کچھ ارشاد ہوتا ہے


کوئی حد ہی نہیں شاید محبت کے فسانے کی

سناتا جا رہا ہے جس کو جتنا یاد ہوتا ہے


جگر مراد آبادی


میں نے پوچھا پہلا پتھر مجھ پر کون اٹھائے گا 

آئی اک آواز کہ تو جس کا محسن کہلائے گا 


پوچھ سکے تو پوچھے کوئی روٹھ کے جانے والوں سے 

روشنیوں کو میرے گھر کا رستہ کون بتائے گا 


ڈالی ہے اس خوش فہمی نے عادت مجھ کو سونے کی 

نکلے گا جب سورج تو خود مجھ کو آن جگائے گا 


لوگو میرے ساتھ چلو تم جو کچھ ہے وہ آگے ہے 

پیچھے مڑ کر دیکھنے والا پتھر کا ہو جائے گا 


دن میں ہنس کر ملنے والے چہرے صاف بتاتے ہیں 

ایک بھیانک سپنا مجھ کو ساری رات ڈرائے گا 


میرے بعد وفا کا دھوکا اور کسی سے مت کرنا 

گالی دے گی دنیا تجھ کو سر میرا جھک جائے گا 


سوکھ گئی جب آنکھوں میں پیار کی نیلی جھیل قتیلؔ 

تیرے درد کا زرد سمندر کاہے شور مچائے گا


قتیل شفائی

iklan
Comments
Commentsyang tampil sepenuhnya tanggung jawab komentator seperti yang diatur UU ITE
  • Stars Rally to Beat Predators in Winter Classic at Cotton Bowl