خوشا بیداد خون حسرت بیداد ہوتا ہے
ستم ایجاد کرتے ہو کرم ایجاد ہوتا ہے
بظاہر کچھ نہیں کہتے مگر ارشاد ہوتا ہے
ہم اس کے ہیں جو ہم پر ہر طرح برباد ہوتا ہے
مرے ناشاد رہنے پر وہ جب ناشاد ہوتا ہے
بتاؤں کیا جو میرا عالم فریاد ہوتا ہے
دل عاشق بھی کیا مجموعۂ اضداد ہوتا ہے
ادھر آباد ہوتا ہے ادھر برباد ہوتا ہے
یہی ہے راز آزادی جہاں تک یاد ہوتا ہے
کہ نظریں قید ہوتی ہیں تو دل آزاد ہوتا ہے
وہ ہر اک واقعہ جو صورت افتاد ہوتا ہے
کبھی پہلے بھی دیکھا تھا کچھ ایسا یاد ہوتا ہے
بڑی مشکل سے پیدا ایک وہ آدم زاد ہوتا ہے
جو خود آزاد جس کا ہر نفس آزاد ہوتا ہے
نگاہیں کیا کہ پہروں دل بھی واقف ہو نہیں سکتا
زبان حسن سے ایسا بھی کچھ ارشاد ہوتا ہے
تمہیں ہو طعنہ زن مجھ پر تمہیں انصاف سے کہہ دو
کوئی اپنی خوشی سے خانماں برباد ہوتا ہے
یہ مانا ننگ پابندی سے کیا آزاد کو مطلب
مگر وہ شرم آزادی سے بھی آزاد ہوتا ہے
تصور میں ہے کچھ ایسا تری تصویر کا عالم
کہ جیسے اب لب نازک سے کچھ ارشاد ہوتا ہے
کوئی حد ہی نہیں شاید محبت کے فسانے کی
سناتا جا رہا ہے جس کو جتنا یاد ہوتا ہے
جگر مراد آبادی
میں نے پوچھا پہلا پتھر مجھ پر کون اٹھائے گا
آئی اک آواز کہ تو جس کا محسن کہلائے گا
پوچھ سکے تو پوچھے کوئی روٹھ کے جانے والوں سے
روشنیوں کو میرے گھر کا رستہ کون بتائے گا
ڈالی ہے اس خوش فہمی نے عادت مجھ کو سونے کی
نکلے گا جب سورج تو خود مجھ کو آن جگائے گا
لوگو میرے ساتھ چلو تم جو کچھ ہے وہ آگے ہے
پیچھے مڑ کر دیکھنے والا پتھر کا ہو جائے گا
دن میں ہنس کر ملنے والے چہرے صاف بتاتے ہیں
ایک بھیانک سپنا مجھ کو ساری رات ڈرائے گا
میرے بعد وفا کا دھوکا اور کسی سے مت کرنا
گالی دے گی دنیا تجھ کو سر میرا جھک جائے گا
سوکھ گئی جب آنکھوں میں پیار کی نیلی جھیل قتیلؔ
تیرے درد کا زرد سمندر کاہے شور مچائے گا
قتیل شفائی