یہ بات اپنی جگہ سچ ہیکہ ریاستی بورڈس کے مقابل مرکزی بورڈ (CBSE) کا نصاب تعلیم نسبتاً مشکل اور معیاری ہوتا ہے ۔ جسے پڑھانے کیلئے اساتذہ میں درکار قابلیت کے علاوہ مثبت سوچ، dedication - مستقل مزاجی جیسے خصائص بدرجہا اتم ہونے چاہیئں - مالیگاؤں میں CBSE کا نصاب چلانے والے ( چِلّانے والے) پرائیویٹ اداروں میں اساتذہ کا استحصال زبان زد عام ہے ۔ تو کیا اس استحصال پر خاموش رہنے والے والدین اساتذہ سے مطلوبہ خصائص کی توقع رکھتے ہیں ؟؟؟
جبکہ حقیقت یہ ہیکہ ان اداروں میں پڑھانے والے افرادِ خانہ درکار قابلیت Qualification بھی نہیں رکھتے ۔
پھر حقیقت کیا ہے؟؟؟
والدین کی بے جا امیدیں طلبہ پر پریشر بناتی ہیں ۔ نااہل یا با اہل لیکن استحصال سے نالاں اساتذہ بچوں کی تشنگی کا مداوا نہیں کرتے ۔ نتیجتاً بچے ٹیوشن کا رخ کرتے ہیں - لیکن ٹیوشن کلاسیس چلانے والے بچے کا رزلٹ نہیں بناتے ۔ رزلٹ تو اسکول کاٹیچر بناتا ہے جس کا استحصال کیا جا رہا ہے ۔
اب بچہ رزلٹ کی بہتری اور والدین کے دباؤ کے درمیان کیا کرے؟؟؟
معصوم بچے کے ذہن میں ایک حل ہے ۔
اسکول میں پڑھانے والے ٹیچر کے گھر ٹیوشن پڑھنے جائے ۔ جس سے ٹیچر کا سافٹ کارنر بھی مل جاتا ہے اور کبھی امتحان کے سوالات کی پیشگی اطلاع ۔
چاہے ٹیچر اور مینجمنٹ مل کر اس کے باپ کی کتنی ہی حجامت بنا ڈالیں ۔
یہ ہے مالیگاؤں کا CBSE ماڈل اور اس کی مارکیٹنگ
حق بات کی تائید کروں تو مجرم
حالات پر تنقید کروں تو مجرم
تم جرم کی تخلیق کرو تو معصوم
میں جرم کی تردید کروں تو مجرم
(فضا ابن فیضی)
پروفیسر انعام الرحمن ابواللیث