نہ جاؤ گھر ابھی تو رات ہے، بادل بھی کالے ہیں
اذاں سمجھے ہو تم جس کو کسی بے کس کے نالے ہیں
ہزاروں وعدۂ شب اس نے اس صورت میں ٹالے ہیں
کبھی مہندی لگائی ہے، کبھی گیسو سنبھالے ہیں
مریض سوز و غم اے چارہ گر! کب بیچنے والے ہیں
کہ ہر آنسو کی رنگت کہہ رہی ہے دل میں چھالے ہیں
نہ پوچھیں آپ دیوانوں سے شام و صبح کا عالم
یہ کیا جانیں کہ دنیا میں اندھیرے ہیں، اجالے ہیں
تیری نیچی نظر ظالم! مسیحا بھی ہے، ظالم بھی
ہزاروں کو جلایا ہے، ہزاروں مار ڈالے ہیں
مریضوں کا دَم آنکھوں میں ہے، وہ ہیں محوِ آرائش
وہاں ہونٹوں کی لالی ہے، یہاں جانوں کے لالے ہیں
ہجومِ حشر کو گھبرا کے مجھ سے پوچھتے کیا ہو
ستایا ہے جنہیں تم نے، یہ وہ فریاد والے ہیں
عیادت کو جو روز آتے ہو اس کا شکریہ، لیکن
کبھی سوچا قضا کے وقت تم نے کتنے ٹالے ہیں
تُو ہی اے ضبطِ غم! ایسے میں غم کی آبرو رکھ لے
بھری محفل ہے اور آنکھوں میں آنسو آنے والے ہیں
نہ جانے حشر کیا ہو راہرو راہِ محبت کا
ہے منزل دور سر پر شام ہے پاؤں میں چھالے ہیں
ہُوا کچھ تم کو اپنے ظلم کا محشر میں اندازہ
خدا کے سامنے جتنے ہیں، سب فریاد والے ہیں
ہمارا کارواں اب تک تو منزل پر پہنچ جاتا
مگر یہ راستے میں پیچ تو راہبر نے ڈالے ہیں
بہاروں کی خبر سُن کر قفس میں رو تو دیتا ہوں
‘کسی سے یہ نہیں کہتا ’مِرے پَر کاٹ ڈالے ہیں
محبت میں نظر آتا نہیں اہلِ محبت کو
کہ دنیا میں اندھیرے چھا رہے ہیں یا اجالے ہیں
قمرؔ تسبیح پڑھتے جا رہے ہیں سُوئے بت خانہ
کوئی دیکھے تو یہ سمجھے بڑے اللہ والے ہیں
استاد قمر جلالوی