حفیظ میرٹھی
آباد رہیں گے ویرانے شاداب رہیں گی زنجیریں
جب تک دیوانے زندہ ہیں پھولیں گی پھلیں گی زنجیریں
آزادی کا دروازہ بھی خود ہی کھولیں گی زنجیریں
ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گی جب حد سے بڑھیں گی زنجیریں
جب سب کے لب سل جائیں گے ہاتھوں سے قلم چھن جائیں گے
باطل سے لوہا لینے کا اعلان کریں گی زنجیریں
اندھوں بہروں کی نگری میں یوں کون توجہ کرتا ہے
ماحول سنے گا دیکھے گا جس وقت بجیں گی زنجیریں
جو زنجیروں سے باہر ہیں آزاد انہیں بھی مت سمجھو
جب ہاتھ کٹیں گے ظالم کے اس وقت کٹیں گی زنجیریں
_______________________________________________________
اس دور کے رسم رواجوں سے
ان تختوں سے ان تاجوں سے
جو ظلم کی کوکھ سے جنتے ہیں
انسانی خون سے پلتے ہیں
جو نفرت کی بنیادیں ہیں
اور خونی کھیت کی کھادیں ہیں
میں باغی ہوں ، میں باغی ہوں
جو چاہے مجھ پر ظلم کرو
وہ جن کے ہونٹ کی جنبش سے
وہ جن کی آنکھ کی لرزش سے
قانون بدلتے رہتے ہیں
اور مجرم پلتے رہتے ہیں
ان چوروں کے سرداروں سے
انصاف کے پہرے داروں سے
میں باغی ہوں ، میں باغی ہوں
جو چاہے مجھ پر ظلم کرو
جو عورت کو نچواتے ہیں
بازار کی جنس بناتے ہیں
پھر اس کی عصمت کے غم میں
تحریکیں بھی چلواتے ہیں
ان ظالم اور بدکاروں سے
بازار کے ان معماروں سے
میں باغی ہوں ، میں باغی ہوں
جو چاہے مجھ پر ظلم کرو
جو قوم کے غم میں روتے ہیں
اور قوم کی دولت ڈھوتے ہیں
وہ محلوں میں جو رہتے ہیں
اور بات غریب کی کہتے ہیں
ان دھوکے باز لٹیروں سے
سرداروں سے وڈیروں سے
میں باغی ہوں ، میں باغی ہوں
جو چاہے مجھ پر ظلم کرو
مذہب کے جو بیوپاری ہیں
وہ سب سے بڑی بیماری ہیں
وہ جن کے سوا سب کافر ہیں
جو دین کا حرفِ آخر ہیں
ان جھوٹے اور مکاروں سے
مذہب کے ٹھیکیداروں سے
میں باغی ہوں ، میں باغی ہوں
جو چاہے مجھ پر ظلم کرو
جہاں سانسوں پر تعزیریں ہیں
جہاں بگڑی ہوئی تقدیریں ہیں
ذاتوں کے گورکھ دھندے ہیں
جہاں نفرت کے یہ پھندے ہیں
سوچوں کی ایسی پستی سے
اس ظلم کی گندی بستی سے
میں باغی ہوں ، میں باغی ہوں
جو چاہے مجھ پر ظلم کرو
میرے ہاتھ میں حق کا جھنڈا ہے
میرے سر پر ظلم کا پھندا ہے
میں مرنے سے کب ڈرتا ہوں
میں موت کی خاطر زندہ ہوں
میرے خون کا سورج چمکے گا
تو بچہ بچہ بولے گا
میں باغی ہوں ، میں باغی ہوں
جو چاہے مجھ پر ظلم کرو