ان کے سائے میں بخت ہوتے ہیں
باپ گھر میں درخت ہوتے ہیں
وہ اپنے چاند کی گڑیا کدھر گئی بابا
دراز عمر تھی لگتا ہے مر گئی بابا
مجھ کو چھاؤں میں رکھا اور خود ہی وہ جلتا رہا
میں نے دیکھا اک فرشتہ باپ کے ہے روپ میں
وہ ماں کے کہنے پہ کچھ رعب مجھ پر رکھتا ہے
یہی وجہ ہے مجھے چومتے جھجکتا ہے !
پرانا سوٹ پہنتا ہے کم وہ کھاتا ہے
،،، مگر کھلونے میرے سب خرید لاتا ہے
وہ مجھ کو سوئے ہوئے دیکھتا ہے جی بھر کے
نجانے سوچ کے کیا کیا وہ مسکراتا ہے !
میرے بغیر ہیں سب خواب اس کے ویراں سے
یہ بات سچ ھے میرا باپ کم نہیں ماں سے
وہ چالیس راتوں سے سویا نہ تھا
وہ خوابوں کو اونٹوں پہ لادے ہوئے
رات کے ریگزاروں میں چلتا رہا
چاندنی کی چتاؤں میں جلتا رہا
میز پر
کانچ کے اک پیالے میں رکھے ہوئے
دانت ہنستے رہے
کالی عینک کے شیشوں کے پیچھے سے پھر
موتیے کی کلی سر اٹھانے لگی
آنکھ میں تیرگی مسکرانے لگی
روح کا ہاتھ
چھلنی ہوا سوئی کی نوک سے
خواہشوں کے دیے
جسم میں بجھ گئے
سبز پانی کی سیال پرچھائیاں
لمحہ لمحہ بند میں اترنے لگیں
گھر کی چھت میں جڑے
دس ستاروں کے سایوں تلے
عکس دھندلا گئے
عکس مرجھاگئے