مالیگاؤں( ہم بھارت ) 22 جون کو لاپتہ ہونے والے ارسلان شیخ کی لاش 24 مئی کو جعفر نگر زیر تعمیر بلڈنگ میں ملنے شہر بھر سوالات کے پہاڑ اور قیاس آرائیوں کے طوفان برپا تھے۔ اس معاملے کو پولس نے ایک چیلنج کے طور پر قبول کرتے ہوئے بالآخر ملزم کو پکڑنے میں کامیابی حاصل کی۔ آزاد نگر پولس عملہ نے شہر بھر تحقیق و تفتیش کا مضبوط جال بچھایا دیا تھا باوجود اس کے ملزم تک پہنچنے میں 15 دن لگ گئے۔
کسطرح پکڑا گیا اغواء و قتل کا ملزم فیضان اختر؟
تحقیق و تفتیش کے دوران پولس کو کچھ سی سی ٹی وی فوٹیج ہاتھ لگے۔ جس میں ملزم شیخ ارسلان لال رنگ کی سائیکل پر لے جاتا ہوا نظر آرہا تھا۔ یہی لال سائیکل پولس کے لئے سراغ کا ذریعہ بنی۔ لال رنگ کی سائیکل کی بنیاد پر آزاد نگر پولس عملہ نے ملزم کی تلاش شروع کردی۔ بالآخر 8 جون کو آزاد نگر پولس عملہ کے پولس نائک سنیل اپّا نے لال سائیکل پر سوار ایک شخص کو دیکھا جوکہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں قید ملزم سے مشابہ نظر آرہا تھا۔ پولس نے جال بچھا کر ملزم کو اعتماد میں لیتے ہوئے اپنی حراست میں لیا اور پوچھ تاچھ شروع کردی۔ پوچھ تاچھ کے دوران ملزم نے اپنے گناہوں کا اعتراف کرلیا۔ جسے فورا ناسک ایس پی کے پاس حاضر کیا گیا۔
ملزم کون ہے اور کہاں سے گرفتار کیا گیا ؟
ارسلان شیخ کا اغواء اور قتل کا ملزم 20 سالہ فیضان اختر ہے۔ جوکہ دت نگر کا رہنے والا ہے۔ پولس نے اس ملزم کو عباس نگر علاقے سے گرفتار کیا۔ یاد رہے کہ فیضان اختر ایک پیر سے معذور بھی۔ قتل کی وجہ نے شہریان کو حیران و شرمسار کردیا ہے۔
کیا تھی قتل کی وجہ ؟
فیضان اختر سے جب پولس نے پوچھ تاچھ کی تو اس نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا۔ ساتھ ہی جب پولس نے وجہ معلوم کی تو 20 سالہ ملزم فیضان اختر نے پولس کو بتایا کہ اس نے 12 سالہ ارسلان کو جنسی خواہش پوری کرنے کے لئے اغواء کیا تھا۔ لیکن جب ارسلان اس کام کے لئے راضی نہیں ہوا تو اس نے ارسلان کے سر پر پتھر سے وار کردیا جس کی وجہ سے ارسلان کی موت واقع ہوگئی۔
8 جون کو ناسک ضلع ایس پی کے دفتر میں حاضری کے بعد 9 جون 2021 کو ملزم کی مقامی کورٹ میں پیشی کی گئی جہاں پر معزز جج نے ملزم کو 5 دنوں کی پولس کسٹڈی کے احکامات صادر کئے۔ اس معاملے پولس مزید تحقیق وتفتیش کررہی ہے۔ پولس نے لال رنگ کی سائیکل کے علاوہ قتل سے جڑے سامان کو بھی ضبط کرلیا ہے۔
اغواء اور قتل کا معاملہ منظر عام پر آنے کے بعد شہر میں طرح طرح کے چرچے جاری تھے۔ لیکن جیسے ہی ملزم گرفت میں آیا۔ اس کی شناخت اور قتل کی وجہ سامنے آئی تو ہر کوئی حیران و شرمسار ہے۔ ہر کوئی یہی کہے رہا ہے کہ سخت سے سخت سزا ہونی چاہیے۔