#ظالمانہ_شہریت_ترمیمی_قانون_کا_غیرقانونی_نفاذ
#اپنے_اپنے_شاہیــن_باغ_تیار_کیجیے :
بالآخر آج بھارت کی وزارت داخلہ نے NRC کے پہلے پڑاؤ یعنی کہ CAAپر عملدرآمد شروع کردیاہے، حکم جاری کیا ہےکہ، پڑوسی ممالک سے آنے والے مسلمانوں کو چھوڑ کر تمام غیرمسلموں کو ہندوستانی شہریت دینے کا عمل شروع کیاجائے , ابھی اس کا نفاذ گجرات، چھتیس گڑھ، پنجاب، ہریانہ اور راجستھان میں ہونے جارہا ہے، مرکزی حکومت کے حکم کےمطابق،
ظاہر ہے یہ مسلمانوں کی شہریت کو مشکوک یا کم از کم دوسرے درجے کا شہری بنانے کی سمت پہلا مرحلہ ہے
جن لوگوں کو یہ خوش گمانی تھی کہ بھلا بھارت میں اتنے سارے کروڑ مسلمانوں کو شہریت سے محروم کیونکر کیا جاسکتاہے؟ یقینًا گزشتہ چھ مہینے میں بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے، عالمی اسلام مخالف رجحانات و پالیسیاں اور ہندوستان کے آئینی اداروں میں ہندوتوا کا بے شرم کھیل دیکھ کر اب آپ سمجھ چکے ہوں گے کہ جب انہیں کرنا ہوگا وہ کر گزریں گے… موجودہ دنیا میں استعماری طاقتیں باہم مربوط ہیں اور عالمی استعمار کا سب سے متحدہ ٹارگٹ مسلمان ہے، جیسے کہ آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد سے بھارتی کشمیر کی صورتحال کیا اسے ڈٹینشن سینٹر سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا؟ چائنا اور برما کے مسلمانوں کی صورتحال کس سے مخفی ہے؟ اور ابھی گزشتہ چند مہینوں سے ہندوستان کے ہی ایک اور مسلم اکثریتی جزیرے لکشدیپ میں برہمنی ہندوتوا کی جوکچھ ظالمانہ کارروائیاں چل رہی ہیں اسے خود وہاں کے بااثر لیڈروں نے لکشدیپ کو جیل میں تبدیل کرنے سے تعبیر کیا ہے
اور آج سے امیت شاہ کی وزارت داخلہ نے سی۔اے۔اے کا نفاذ بھی شروع کردیاہے
لیکن جو لوگ مسلم لیڈرشپ کی مرکزی گدیوں پر قابض ہیں کیا وہ کہیں نظر آرہے ہیں؟ یا پھر اب اس ظالمانہ قانون کے نفاذ کے پہلے مرحلے کو کسی بہانے باز تاویل یا توجیہ کےذریعے نظرانداز کرنے کی بزدلانہ پالیسی اختیار کرکے راہ فرار کی تلاش ہوگی، اور قوم کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گے؟
ابھی جن بنیادوں پر مرکزی حکومت نے اس کالے قانون کے نفاذ کے لیے احکامات جاری کیے ہیں وہ پوری طرح غیرقانونی اور فریب پر مبنی ہیں، جس پرانے ایکٹ کی بنیاد پر شہریت دینے کا کہہ رہےہیں اس میں ایسی منافرت کی جگہ نہیں اور سابقہ CAA نافذالعمل ہونے کا ابھی کوئی گراؤنڈ نہیں ہے، لیکن اس کےباوجود جوکچھ کیاجارہا ہے آمرانہ طرز پر وہ CAA ہی ہے، انہیں سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کرکے روکا جاسکتا ہے، لیکن اس ظالم ارادے کا مستقل علاج کرناہے کہ نہیں؟
یہ وقت پھر سے صف بندی کا ہے، ہراس میں مبتلاء ہونے کا وقت نہیں ہے، ناہی خودفریبی کا شکار ہوناچاہئے، بلکہ جو حالات بن رہےہیں انہیں حقائق کی روشنی میں تسلیم کرنا چاہیے،
جو لوگ تدبیر، اقدام، اور خطرات کا ذکر سن کر ایمانی حرارت جانچ کر ان کا استقبال کرتے ہیں یقینًا وہ اس خطرے سے بھی بجائے خوف و ہراس اور نفسیاتی حصار میں الجھنے کی جگہ اقدامی بصیرت کی طرف رخ کریں گے، البته پیش آنے والے حالات سے آنکھیں موند لینا يہ خودفریبی اور شترمرغی ہے جوکہ وہن زدہ قلوب کی کاشت ہے اسی خود فریبی نے گزشتہ ساٹھ ستر سال میں ہمیں اس بدترین حالت میں پہنچا دیا ہے
جب یہ ظالمانہ اور سیاہ قانون پاس ہوکر آیا اس وقت پورے ملک میں شاہین باغ والوں اور ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے طلباء و طالبات اور سوشل ایکٹوسٹ حضرات نے سڑکوں پر آندولن شروع کیا اور ہندو احیاء پرستی والی بھارتی حکومت کو سخت ٹکر دی تھی انہوں نے سب کی طرف سے حق ادا کردیا تھا لیکن یہ لڑائی لڑنے والے ہمارے اہم ترین قوم کے جانباز شرجیل امام سے لیکر خالد سیفی، عمر خالد، آصف اقبال، اکھل گوگوئی اور گل فشاں اور مزید کئی جانباز آج تک سلاخوں کے پیچھے ایڑیاں رگڑ رہےہیں، ہم اور آپ نے ملکر ان کا کوئی حق ادا کیا؟ اس پر ضرور سوچیے گا۔
اب جبکہ ہندوتوا استعمار بھارت میں ایک سخت ترین ظالمانہ اقدام کا کھل کر نفاذ کررہاہے، این آر سی اور شہریت ترمیم کا سیاہ ترین قانون لایا جاچکاہے، کیا ہماری یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ سڑکوں کو شاہین باغات سے آباد کریں، قانونیلڑائی بھی لڑیں، جب ایوانوں میں انسانی حقوقِ حریت اور شہریت پر ڈاکے ڈالے جاتے ہوں تب انہیں بچانے اور عزتوں کو محفوظ کرنے کے ليے سڑکیں ہی آباد کی جاتی ہیں، بیجا خوف اور غیرضروری مصلحتوں سے باہر نکل کر CAA اور NRC کے بوتل سے باہر نکلتے جِن کو پہلے ہی دفن کرنا لازمی ہے،
شرمناک ترین حقیقت ہماری یہ ہیکہ ۔ جب کرونا وائرس کےنام پر این آر سی اور سی اے اے مخالف تحریک کو بند کروایا گیا تب سے اب تک ایک سال کا موقع ہمیں ملا، میں نے اور میرے علاوہ کئی افراد نے اس درمیان قوم کی اعلیٰ سطحی قیادت کو بارہا متوجہ کیا، کئی بار توجہ دلائی کہ، دیکھیے اس دوران این آر سی اور شہریت ترمیمی قانون کےخلاف صف۔بندی اور پلاننگ کرلیجیے، لیکن ہم نے کیا کِیا؟
اب یہ وقت ہیکہ فضولیات اور غیر پائیدار چیزوں میں نہ پڑتے ہوئے بیدار اور باشعور متحرک اور زمین سے جڑے جوان فیصلہ لیں کہ اپنی آزادی اور آئین کی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے انہیں کیا رول نبھانا ہے؟ _
سمیع اللہ خان