از قلم مرزا انور بیگ
کسان کی آواز
کیا ہے ہم پہ جو تم نے وہ سب احسان لو واپس
یہ ہے قانون کالا کہہ رہا دہقان لو واپس
یہ تم نے راستے کھولے ہیں سب سرمایہ داروں کے
ہمیں سمجھو نہ اب اتنا بھی تم انجان لو واپس
ترے شکل و بیاں سے ہے تکبر کی جھلک ظاہر
انا کے بت کو توڑو اور یہ فرمان لو واپس
سمجھ آتے ہیں تم سے بھی زیادہ فائدے نقصاں
سمجھتے ہیں تری چالاکیاں نادان لو واپس
اگر تھا سود مند قانون تو پھر اتنی عجلت کیوں
لے آئے چور دروازے سے یہ سامان لو واپس
کسانوں کی چتاؤں پر لگائی ہے مہر تم نے
یا کس کی مٹھیوں میں ہے تمہاری جان لو واپس
نہ ہندو ہیں نہ مسلم ہیں ہمیں دہقان کہتے ہیں
نہ چھینو دے کے مذہب کی ہمیں پہچان لو واپس
ہمارے کھیت دیکھے ہیں ہمیں اب تک نہیں دیکھا
دکھانے آۓ ہیں ہم آج اپنی شان لو واپس
تمہیں قانون لینا ہوگا واپس وہ تو ہوگا ہی
لگاۓ ہیں جو ہم پر تم نے وہ بہتان لو واپس
اگر مانی گئی نہ بات ایواں میں نہ کہنا پھر
ہتھیلی پر لئے نکلے جہاں قربان لو واپس
6 دسمبر 2020