Advertising

شیخ آصف کا استعفی! پردے کے پیچھے کیا ہے؟ دونوں ہاتھوں میں لڈو؟

Hum Bharat
Friday, 5 March 2021
Last Updated 2021-03-05T07:12:42Z
Premium By Raushan Design With Shroff Templates

کونسی پارٹی شہر کے حق میں مفید ہے؟ ایک قدم نئے راستے کیطرف! کیا ہے طلباء کی رائے ؟ کیا کہتے ہیں نوجوان؟ تاکہ پھر ایک مرتبہ شہر کو بے وقوف بنایا جائے۔ تاکہ عوامی خزانہ پر پھر کالے ناگن کی طرح قبضہ کیا جائے۔ شہر میں شادی بیاہ دینی و ملّی تقریبات نہیں ہوں گی ہاں البتہ ہمارا سیاسی جلسہ تو ہر حال میں ہوگا۔ نیا اعلان کرکے دونوں ہاتھوں میں لڈو جو لینے ہیں۔




ایک پارٹی سے استعفی کا اعلان کرنے کے بعد شہر میں مسلسل عوامی تشہیر کی جارہی ہے کہ کونسی پارٹی کی رکنیت لی جائے؟ کونسی پارٹی شہر کے حق میں مفید ہے ؟ حالانکہ سب کچھ پہلے سے طئے ہوچکا ہے۔ سب پری پلاننگ کے تحت کام ہورہا ہے۔ لوگوں سے دلاسے والا مشورہ لےکرانہیں خوش فہمی میں رکھا جارہا ہے۔


ہاں اگر یہ پوچھا جائے کہ شہر میں قیادت کا حق کس کو ہے ؟ تو شاید عوامی مشورہ کے مطابق موجودہ کوئی بھی سیاسی لیڈر اس کا حقدار نہیں۔ کسی پارٹی کی رکنیت حاصل کرنے سے کام نہیں ہوتا بلکہ کام کرنے سے کام ہوتا ہے۔ شہر میں کارپوریشن الیکشن کی تیاری شروع ہوچکی ہے۔ ایسے میں شیخ آصف کا استعفی بھی ایک بڑے سیاسی داؤ و سیاسی چال کا حصہ نظر آرہا ہے۔ گمان ہے کہ اس مرتبہ دونوں ہاتھوں میں لڈو ہوں گے۔ یعنی کانگریس پارٹی اور راشٹر وادی کانگریس کی دوکان ایک ہی گھر سے چلے گی۔ ایسا کرنے سے شہر کو نئی قیادت ملنے سے روکا جارہا ہے۔


اس وقت شہر کی حالت آپ کے سامنے ہیں۔ دنیا کا آٹھواں عجوبہ فلائے اوور بریج بھی ہمارے شہر میں موجود، خوبصورت تاج ، آگرہ روڈ کا تو جواب ہی نہیں۔ دھول کھاتا اردو گھر بھی آہ بکا کی صدائیں بلند کررہا ہے۔ ہل اسٹیشن گھناؤنا جنگل بن رہا ہے جہاں بہت کچھ۔۔۔۔۔۔کام بھی ہورہے ہیں۔ شہر کی سڑکیں، گٹریں، گڑھے ختم ہوتا سرکاری پرائمری تعلیمی نظام، سرکاری ہاسپٹل میں سازوسامان، سہولیات اور خدمات کی عدم فراہمی، بڑھتا ہوا اتی کرمن کا عتاب، حادثات کے سلسلے، آوارہ ہوتی شہر کی فضائیں، اور نا جانے کتنی شہر کی تکالیف و مشکلات شہر کے سیاسی لیڈران کی بے غیرتی، بے شرمی، بے ضمیری، مفاد پرستی اور دنیاوی ہوس پرستی پر ماتم کناں ہیں۔ لیکن واہ ہمارے موجودہ اور سابق ایم ایل اے۔ سابق و موجودہ میئر اور غلطی سے کامیاب ہونے والے ممبران کہ ان کو کوئی لینا دینا ہی نہیں ۔شہر کھنڈر ہوتا ہے ہونے دو ! ہمارے بنگلے عالیشان ہیں۔ شہر گندگی اور مسائل سے دوچار لیکن مجھکو کیا میرا حصہ تو مجھے مل رہا ہے۔

جو اردو گھر بنانے کا دم بھر رہے تھے وہی اس گھر کو شروع کرنے کی بات کررہے ہیں۔ فلائے اوور بریج کے تعلق سے تو جیسے  سانپ سونگھ گیا۔ ڈیم کے پانی پر فضول کی تشہیر بھی ہورہی ہے۔ آگرہ روڈ پر چار لوگوں کا فنڈ کہاں گیا؟ یہ تمام مسائل کیوں حل نہیں کئے جاتے۔ موجودہ ایم ایل اے کی تو خدا خیر کرے سابق والوں سے سبقت لے گئے۔ کئی دنوں بعد اسمبلی میں منہ کھولا گیا۔ لیکن یہ صرف منہ کھلا ہےاس کے علاوہ شاید کچھ ہوگا بھی نہیں۔



اس شہر کو ایماندار، تعلیم یافتہ، ترقی پسند افراد کی ضرورت ہے۔ کاش کہ ہماری عوام بیدار ہوجائے۔ کاش کہ چند روپیوں پر اپنے ضمیر،اپنے مستقبل اور بچوں کے مستقبل کا سودا کرنا بند ہوجائے۔ ہمیں ہم نے ہی لوٹا ہے۔ ہم اندھی تقلید میں گم ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے شہر اور شہریان کا نقصان ہورہا ہے۔ یہاں کہ لیڈران صرف تشہیری سیاست کرتے ہیں۔ تعمیری سیاست سے انہیں کوئی لینا دینا نہیں۔ پانچ سال ہزار کھولی ، پانچ سال نیاپورہ اور بچا کچا ٹانکی کے نیچے کی سیاست کے خاتمے کی اشد ضرورت ہے تب ہی یہ شہر ترقی کرے گا۔



ہاں تو بات چل رہی تھی دونوں ہاتھوں میں لڈو کی۔ ہم تو سمجھے تھے کہ چلو اچھا ہواآپ نے استعفی دے دیا اب کچھ ہوسکتا ہے۔ لیکن کسے پتہ تھا کہ ایک نئے عتاب کا اعلان کردیا جائے گا۔ عوامی رائے بہانا بناکر صرف تشہیر کی جارہی ہے۔ ورنہ ایمانداری سے اگر رائے لی جائے تو شہریان موجودہ تمام سیاسی جماعتوں سے عاجز آچکے ہیں۔ وہ نئی راہ تلاش کررہے ہیں۔ اس لئے خدارا آخرت کی فکر کیجئے نئے لوگوں کو موقع دیجئے۔ ہمیں تو اندیشہ ہے کہ دونوں ہاتھوں میں لڈو یعنی راشٹر وادی کا اعلان نہ ہوجائے۔ اگر شیوسینا کا بھی دامن تھام لیا جائے تو کون کیا کرسکتا ہے۔



اس شہر کی تقدیر میں منزل تو ہے لیکن 
افسوس کوئی قافلہ سالار نہیں ہے

iklan
Comments
Commentsyang tampil sepenuhnya tanggung jawab komentator seperti yang diatur UU ITE
  • Stars Rally to Beat Predators in Winter Classic at Cotton Bowl