Advertising

پتّھر کردینے والے لوگ

Hum Bharat
Friday 19 March 2021
Last Updated 2021-03-19T05:55:41Z
Premium By Raushan Design With Shroff Templates

 "پتھر کر دینے والے لوگ"



کہانیوں کا کیا ہے  کہانیاں تو بہت سی بکھری پڑی ہیں۔ آپ نے بھی پڑھی تو ہو گی پڑھی نہیں تو سنی تو ضرور ہوگی گی۔ لیکن نہ جانے آپ نے اس شہزادے کی کہانی سنی ہو یا نہ ہو جو شہزادی تک بالآخر پہنچ ہی گیا۔ لیکن ٹھہرئیے کیا میں نے آپ کو یہ بتایا کہ وہ شہزادہ تو تھا ہی نہیں

اس راز کے درمیان میں کچھ اور کہانیاں بھی آتی ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے پڑاو ہیں مگر یہ سب وہ کہانیاں ہیں جو آپ نے پڑھی تو ہو گی پڑھی نہ بھی ہو سنی تو ہوں گی کیونکہ کہانیوں کا کیا ہے یہ تو کہانیاں ہی ہیں  اگر سمجھا نہ جائے جیسے کہ پہلے پڑاؤ کی پہلی کہانی


جنگل کے اس کنویں کی کہانی جس میں مینڈک گر جایا کرتے تھے۔ اور پھر عمر بھر وہیں کے ہو کر موت کا انتظار کرتے رہتے۔ کیونکہ پہلے گرنے والے مینڈک نے دوسرے گرنے والے مینڈک کو یہ یقین دلادیا تھا کہ تم یہاں سے نہیں نکل سکتے۔ حالانکہ گرنے کے دوران پہلے مینڈک کا پاؤں ٹوٹ گیا تھا۔ اس بنا پر وہ مکمل کوشش ہی نہ کر سکا۔ دوسرا مینڈک جو گرا وہ جوان بھی تھا اور دونوں پاؤں سلامت بھی تھے۔ لیکن جو اس نے سنا اس پر یقین کر لیا۔ کوئی ایک دو چھلانگیں بھی ضرور لگائیں مگر انتہائی بے دلی کے ساتھ اور پھر یقین کرلیا کہ ایسا تو ہو ہی نہ پائے گا۔ بیٹھ گیا موت کے انتظار میں ۔ ایک کے بعد ایک مینڈک گرتے چلے گئے۔ لیکن ان مینڈکوں کی تعداد بڑھتی گئی جو نئے آتے انہیں پرانے یقین دلاتے کہ ان دیواروں کو عبور نہیں کیا جا سکتا کہ ایک ایسا مینڈک گرا جو سننے کی صلاحیت سے محروم تھا چنانچہ وہ یہ آواز نہ سن سکا اور کنویں کی دیواروں کو پار کر گیا۔


اور کہانیوں کا ہے کیا کہانیاں تو بہت سی ہیں بکھری پڑی ہیں آپ نے پڑھی نہ بھی ہوں سنی ضرور ہوگی اس لومڑی کی کہانی جو دریا کے بیچ و بیچ ڈوب گئی۔ جانتے ہیں اس نے غلطی کیا تھی۔ ایک اونٹ سے مشورہ لینے کی غلطی۔ اور اونٹ نے جھوٹ تو بالکل بھی نہ بولا تھا۔ لومڑی نے پوچھا دریا میں پانی کتنا ہے اس نے بتایا گھٹنوں گھٹنوں لومڑی درمیان تک آتے آتے ڈوب گئی ہاتھ پاؤں سے مارے لیکن ڈوبنے سے بچ نہ سکی۔ شاید مرنے سے پہلے یہ جان پائی بھی تھی کہ نہیں  کہ دریا کا پانی اونٹ کے گھٹنوں گھٹنوں تھا لومڑی کے نہیں۔ اسے باتوں نے پتھر کا کیا کرنا تھا وہ تو جان سے ہی چلی گئی گی۔


کہانیاں تو بہت سی ہیں بکھری ہوئی آپ نے بھی سنی ہو گی اور یقیننا آپ ان میں سے کسی ایک کا حصہ بھی ہوں گے۔  اس شہزادی کی کہانی  جسے ایک دیو نے قید کر لیا۔ بہتوں نے کوشش کی کہ شہزادی کو قید سے چھڑا کر لے آئیں۔ مگر اگر وہ آوازوں کے سحر سے نہ نکل سکے۔ سنتے ہیں کہ جب بھی کوئی اس رستے پہ چلتا جو شاہزادی تک پہنچتا تھا تھا ۔ اسے سحر زدہ آوازیں سنائی دیتیں۔ وہ بے اختیار پلٹ کر دیکھتا اور پتھر کا ہو جاتا۔ بس راستے میں پلٹنا ہی تو نہ تھا رکنا ہی تو نہ تھا سارا راز تو یہی تھا بس پلٹے اور پتھر کے ہوگئے اور پلٹے کیوں کہ کسی آواز پر دھیان دے دیا۔


لیکن ایک نے وہ راز پا لیا۔ جس نے اس کو شہزادی تک پہنچا دیا۔ وہ شہزادہ تھا یا نہ تھا اس سے کیا فرق پڑتا ہے ہے  بس مدعا تو یہی ہے کہ وہ شہزادی تک پہنچ گیا اور شہزادوں کی طرح سراہایا گیا۔

اصل مدعا ایک راز تھا جسے وہ جانتا تھا اور دل و جان سے اس پر عمل پیرا تھا۔ وہ شخص جسے شادی کو پانا تھا اپنے استاد تک گیا سوال کیا استاد گرامی قدر شہزادی کو پانا ہے رستے میں سحر زدہ آوازیں ہیں کیا کروں۔ ندی کے کنارے استاد موجود تھا پانی میں اتر گیا اس عام سے شحص کو پانی میں بلایا ۔ وہ اترتا ہوا استاد تک پہنچا۔ اسے سر سے پکڑا اور اس کا منہ پانی میں اتار دیا۔ سانس بند یہ تو اس نے سوچا بھی نہ تھا۔ بتیرے ہاتھ پاؤں مارے مگر استاد نے چھوڑا ہی نہ گھڑی بھر کو بھی کوئی دوسری سوچ کوئی دوسری آواز ذہن میں نہ کوندی  بس خیال تھا تو صرف اتنا کہ سانس بہال ہو۔ اس سے پہلے کہ سانس کی ڈوری ٹوٹتی۔ ایک دم استاد نے پانی سے باہر کھینچ لیا۔


سانس میں سانس آئی تو استاد بولے جیسے اس ایک سانس کی آرزو میں جدوجہد کی تھی ویسے شہزادی کے لئے اترو ۔ اسی آرزو اسی تمنا کے ساتھ نہ کسی آواز پر دھیان جائے گا نہ ہی کہیں پلٹو گے


کہتے ہیں ۔ مشورہ تو دیوار سے بھی کر لینا چاہئے صحیح ہی کہتے ہوں گے مگر یہ زیادہ درست ہے کہ بتیرے لوگ ایسے بھی ملتے ہیں جو بات کرتے ہیں اور پتھر کا کر دیتے ہیں۔


بچ کر رہیں ہوشیار رہیں ان لوگوں سے جو بات کرتے ہیں اور پتھر کا کر دیتے ہیں ورنہ کہانیاں تو بہت سی ہیں بکھری پڑی ہیں آپ نے پڑھی نہ بھی ہوں سنی ضرور ہوں گی۔ بس یہ دعا ہے کہ جب آپ کی کہانی لکھی جائے یا سنائی جائے تو وہ رستہ میں پتھر ہو جانے والوں سی نہ ہو۔

--------------------------------------------------------------------------

یہ اقتباس مصنف طیب اطہر کہ زیر طبع کتاب "اپنی مدد آپ " سے لیا گیا ہے

iklan
Comments
Commentsyang tampil sepenuhnya tanggung jawab komentator seperti yang diatur UU ITE
  • Stars Rally to Beat Predators in Winter Classic at Cotton Bowl