Advertising

نکاح کو آسان بنانے میں ہم اب تک کیوں ناکام ہیں؟

Hum Bharat
Friday 19 February 2021
Last Updated 2021-02-19T07:00:43Z
Premium By Raushan Design With Shroff Templates

✍ڈاکٹر محمد طارق ایوبی 

 اسلام نے نکاح کو نہایت آسان بنایا ہے، بالغ اور نکاح کے لائق لوگوں کو جلد نکاح کرنے کی ترغیب دی ہے، اس سلسلے میں قرآن مجید کا بیان بڑا معنی خیز اور بہت عجیب و غریب ہے جس کی طرف عام طور پر نہ لوگوں کی توجہ جاتی ہے اور نہ اس سے عوام کو واقف کرایا جاتا ہے، ارشاد باری ہے: ’’وأنکحوا الأیٰمی منکم والصالحین من عبادکم وإمائکم، إن یکونوا فقراء یغنہم اللہ من فضلہ، واللہ واسع علیم (النور۳۲) ’’ تم میں جو غیر شادی شدہ لوگ ہیں (مرد یا عورت) اور تمہارے غلاموں اور باندیوں میں سے جو نیک صالح ہیں ان کی شادی کر دو، اگر وہ تنگ دست ہوں تو اس کی وجہ سے تاخیر نہ کرو اللہ ان کو اپنے فضل سے خوشحال کر دے گا، اور اللہ بڑی وسعت رکھتا ہے، بڑا علم رکھتا ہے‘‘۔

  اس آیتِ کریمہ میں’’ یغنہم اللہ من فضلہ ‘‘  کے وعدہ پر اگر غور کیا جائے تو بے شمار مسائل حل ہو جائیں، یہ نکاح کے متعلق قرآن کا وہ آسان ترین تصور ہے جہاں فطرت انسانی کے مطابق دین فطرت نے اس کی ضرورت  پوری کرنے کے طریقہ کی طرف توجہ دلائی ہے اور دوسری طرف تنگ دستی کو مالداری سے بدلنے کا بھی وعدۂ الہی ہے، نکاح کو اسلام نے اس قدر آسان بنایا ہے کہ دو گواہوں کی موجودگی میں عاقل و بالغ مرد و عورت ایجاب و قبول کرلیں تو بس نکاح ہوگیا، باقی رہ گیا خطبہ نکاح تو وہ ایک مستحب عمل ہے، لڑکے کی طرف سے ولیمہ جسکے وجوب واستحباب کے سلسلہ میں بھی علماء کے درمیان بحث ہے گر چہ وہ جمہور کے نزدیک ایک سنت ہے اور وہ بھی نکاح کے اعلان کا ایک ذریعہ ہے، مجلس نکاح خود بھی اعلان کا ہی ایک ذریعہ ہے، لیکن نکاح کو کس قدر مشکل بنا دیا گیا ذرا تصور کیجئے، گردو پیش کا جائزہ لیجیے، نکاح اتنا مشکل ہو گیا، سماج کا دباؤ، سماج کے تقاضے اس قدر بڑھ گئے کہ لوگ نکاح کو ایک بوجھ سمجھنے لگے، ولیمہ کی ایسی تشریح کی گئی وہ خود ایک بوجھ بن کر رہ گیا، جہیز و بارات کی خاطر مدارات تو پہلے سے ہی ایک اضافی بوجھ تھا، رسومات نے یوں ہی بوجھل کر رکھا تھا، نتیجہ یہ ہے کہ بے شمار لڑکیاں رشتوں کے انتظار میں بوڑھی ہوجاتی ہیں، کتنی ایسی لڑکیاں ہیں جو محض غربت کے سبب ستائی جاتی ہیں، طلاق دے دی جاتی ہے، مارپیٹ کی جاتی ہے، زنا عام ہوا جاتا ہے، بے محابہ اختلاط اور ذہنی عیاشی کو فروغ مل رہا ہے، نکاح کی ان مشکلات نے اس مغربی تصور کو تقویت پہنچائی ہے کہ پہلے اپنے پیروں پر کھڑا ہوا جائے یعنی پہلے کچھ اسٹیبل ہوا جائے پھر نکاح کیا جائے، حالانکہ اس اسٹیبلشمنٹ کے انتظار میں کچھ زنا کرتے ہیں، کچھ زنا تو نہیں کرتے مگر عیاشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، جو بہت احتیاط کرتے ہیں وہ بھی ذہنی آسودگی کے طریقے تلاش کر ہی لیتے ہیں، کیونکہ یہ دور فحاشی کا ہے، ہیجان بپا کر نے کا سامان ہر لمحہ آنکھوں کے سامنے ہے، اور انسان کے اندر جنسی تسکین کی طلب فطری طور پر رکھی گئی ہے، شریعت نے اس تسکین کے لیے جواز فراہم کیا ہے، اور جائز طریقہ اپنانے کو نہایت آسان بنایا ہے۔

 نکاح مشکل کیوں ہے؟ اس کی وجہ غیر دیندار طبقہ نہیں بلکہ ہم ہیں جو بظاہر دیندار کہلاتے ہیں، ہم کہیں بارات کا جواز فراہم کرتے ہیں، کہیں جہیز کو روا رکھنے کے طریقے ڈھونڈتے ہیں، کہیں ولیمہ کی کثرت و تنوعات واسراف کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کو لازمی سنت قرار دینے کی ایسی رٹ لگائے رہتے ہیںکہ سماجی ریت رواج سے ہٹ کر کوئی چند لوگوں کو بلا کر ماحضر پیش کرکے ولیمہ کر دے تو اس کی زندگی اجیرن ہوجائے ، مال داروں کی شادیوں میں شرکت کو بڑا اعزاز سمجھتے ہیں، چٹخارے لے لے کر کھاتے ہیں، تنوعات سے لطف اندوز ہوتے ہیں، داعی کی تعریف اور اس کے اہتمام کی قصیدہ خوانی میں قلابے ملاتے ہیں اور بڑی حد تک اپنی استطاعت کے بقدر خود بھی یہی کرتے ہیں، کبھی اس جانب توجہ نہیں دی جاتی کہ اس ولیمہ میں بھوکوں کو غریبوں کو دور رکھا گیا ہے، امراء اور آسودہ حال لوگوں کو ہی بلایا گیا ہے، کھانے کے تنوعات میں اسراف سے کام لیا گیا ہے، اختلاط بھی روا رکھا گیا ہے، یہ اس ولیمہ کی بات ہے جس کو بڑی شدت سے سنت کہا جاتا ہے اور سنت کہتے وقت عصری تناظر میں اس کی مصداقیت پر سرے سے گفتگو ہی نہیں ہوتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دراصل نکاح کے اعلان کا حکم دیا، ولیمہ ہو یا محفل نکاح سب اسی اعلان کا ذریعہ ہیں، علماء کے درمیان خود اس پر بحث موجود ہے کہ ولیمہ کو سنت کہا جائے یا محض ایک مباح واستحبابی عمل،در اصل نکاح کے شکرانے میں دعوتِ ولیمہ مشروع ہے ،علامہ نوویؒ لکھتے ہیں ،’’و أمّا ولیمۃ العرس فقد اختلف أصحابنا: فمنھم من قال ھی واجبۃٌ ۔۔۔ و منھم من قال : ھی مستحبّۃٌ،نیز علّامہ قرطبیؒ نے استحباب کو مشہور مذہب قرار دیا ہے ، ’’المغنی‘‘ میں سنّیت کا قول ذکر کیا گیا ہے ،اور علامہ عینیؒ فرماتے ہیں، قال بعضھم‘‘ کلمۃ ’’لو‘‘ھنا للتّمنیّ ،کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر ایک بکری بھی ذبح کردی جاتی ،بعض فقہاء کہتے ہیں کہ ولیمہ کی مقدار و کیفیت داعی کی حیثیت اور معاشی حالت پر منحصر ہے ، یہ بات اصولی طور پر درست ہے مگر سیرتِ رسول ﷺ اور صحابہ کی زندگیوں کے عمومی مطالعہ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ تکثیر و تداعی و تنوع کہیں بھی مطلوب نہیں ہے ، بلکہ تداعی سے اجتناب اور سادگی کا استحباب صاف سمجھ میں آتا ہے ، کلمہ’’ لو‘‘ پر بحث اور اس کو تمنا پر محمول کرنا خود اس کی دلیل ہے ، پھر بات صرف جواز وعدم جواز کی نہیں، خود ہمارے سامنے رسول اللہﷺ کا اور آپﷺ کے صحابہ کا عمل ہے۔   

 حضرت عبدالرحمن بن عوف نے نکاح کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع نہیں دی، جب آپ کو پتہ چلا تو آپ نے فرمایا: ’’أولم ولو بشأۃ‘‘۔اس سے پتہ چلا کہ ولیمہ نکاح کے اعلان کا ذریعہ ہے، یہی حال حضرت جابر ؓ کے نکاح کا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا مدعو ہونا تو دور آپ کو اطلاع تک نہ تھی ، نکاح کے بعد آپﷺ کو اطلاع ہوئی،  ذرا سوچیے کہ مدینہ میں رسول ﷺ سے زیادہ محترم و معزز اور کوئی شخصیت تھی ، آخر اس سے کیا بات ثابت ہوتی ہے اور کس پہلو کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ، ولیمہ کو ایک ایسی لازمی سنت کے طور پر بیان کرنا درست نہیں کہ اس کا تارک اپنے آپ کو گنہگار محسوس کرے، اگرچہ سماج نے ولیمہ کو ایسا بنا دیا ہے کہ ولیمہ کر کے سماج کی ''جہنم'' بھرنے والے اکثر اوسط درجے کے لوگ سالہا سال قرض ادا کرتے رہتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا نکاح کیا، اپنی صاحبزادیوں کا نکاح کیا، صحابہ کرام نکاح کرتے تھے ان میں سے بہت سے ولیموں کی تفصیلات موجود ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولیمہ کیا بھی تو آس پاس کے چند لوگوں کو مدعو کر لیا، حضرت صفیہ کے نکاح میں جو ولیمہ کیا اس میں حاضرین کو نہ تو گوشت کھلایا اور نہ روٹی، بلکہ ایک دستر خوان بچھا دیا گیا اور رفقائے سفر میں میں اعلان کر دیا کہ جس کے پاس جو ہے وہ لے آئے اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرمایا ’’آذن من حولک ‘‘  ’’آس پاس کے لوگوں کو اس کی اطلاع کر دو‘‘۔ کبھی آپ نے کھجور اور پنیر سے ولیمہ کر دیا بس ، ایک ولیمہ کے بارے میں گوشت اور روٹی منقول ہے ،’’ جسکے پاس جو ہے وہ لے آئے‘‘ اور’’آس پاس والوں کو اطلاع کر دو‘‘ ، اس سے مزاج نبوت کی کیسی تصویر سمجھ میں آتی ہے ، کبھی ایسا نہ ہواکہ مدینہ منورہ میں منادی ہوئی کہ آپ علیہ السلام کی شادی کا جشن ہے، جو نہیں پوچھے جاتے ان کی کوئی شکایت بھی منقول نہیں، ان تفصیلات سے نکاح وولیمہ میں سادگی و آسانی کا پسندیدہ اور مستحب ہونا معلوم ہوتا ہے۔ 

 تاجدار مدینہ اور سرور کونین نے جب ولیمہ کیا بھی تو ان کی سادگی پر قربان جائیے، آج غریب سے غریب کا ولیمہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ولیموں سے وسیع ہوتا ہے، جو کچھ میسر ہوتا اسے حاضرین کے سامنے رکھ دیا جاتا، ہے کسی میں ہمت جو کھجور یامالیدہ (روٹی شکر پانی یا گھی سے بنایا جاتا ہے) سے ولیمہ کرے؟ ہم نے کہیں کوئی واقعہ نہیں پڑھا، نہ رسول اللہ کی سیرت میں اور نہ صحابہ کی سوانح میں کہ ولیمہ میں شرکت کے لئے دور دراز کا سفر کیا گیا ہو، مکہ سے مدینہ اور طائف سے مکہ کی طرف سفر کیا گیا ہو، عہد نبوی کے آخر میں تو صحابہ عرب بھر میں پھیل گئے تھے، سب کی خواہش ہوتی ہوگی کہ ہمارا خطبہ نکاح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی پڑھیں یا کم ازکم برکت کے لیے ہی شرکت فرما دیں، مگر سیرت ہمیں بتاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف نکاح میں شرکت کے لیے کوئی دور دراز کا سفر اختیار نہیں کیا، دراصل اسلام کا اصول ہے: ’’لا یکلف اللہ نفسا إلا وسعہا‘‘۔ اللہ تعالی نے انسان کو کسی مسئلے میں بھی اس کی استطاعت سے زیادہ کا مکلف نہیں بنایا ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ضروریات کے حصول کو نہایت آسان رکھا ہے، چنانچہ کسی کی استطاعت ہے تو ولیمہ کرے، نہیں ہے تو نہ کرے، اگر چائے  بسکٹ پر اکتفا کر سکے توکر لے ، کوئی کتنا بھی امیر ہو اسے سماج کی رعایت کرتے ہوئے ہی ولیمہ کرنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ آپ کے ولیمے دوسروں کے لئے باعث عار اور مشکلات کا سبب بن جائیں، تاریخ نویسی ایک الگ فن ہے، حضور اور صحابہ کے عمل کو عہدِ نبوی کے تمدن کے طور پر پیش کرنا بہت مبارک، مگر اس سے استدلال کرتے وقت مجموعی طور پر سیرت اور مزاجِ نبوت ومزاجِ شریعت کا سامنے ہونا نیز عصری تناظر میں اسکی مصداقیت پر گفتگو کرنا لازمی ہے ورنہ محض استدلال درست نہیں۔

 مسلمانوں میں شادی کی فضول خرچیاں اس لیے نہیں ختم ہوتیں کیونکہ اس میں دیندار طبقہ خود ملوث ہوتا ہے، میرے پاس ریکارڈ موجود ہے بعض ان لوگوں کا جو بسا اوقات اصلاح معاشرہ کی تحریک چلاتے ہیں، مگر جب انھوں نے خود شادیاں کیں تو امراء ووزراء کی لائن لگادی، مہنگے ترین ہوٹل میں تنوعات کے ساتھ مہنگی شادی کی، کبھی معلوم ہوا کہ دیندار لوگ دور دراز کا سفر محض متعلقین و متوسلین کی شادیوں میں شرکت کے لیے کرتے ہیں، پورے لاؤ لشکر کے ساتھ ہزاروں کلومیٹر کا سفر محض ایک شادی میں شرکت کے لیے آخر کس زمرے میں رکھا جائے گا اسکو ، جس کی گلی اور محلے میں غریب و متوسط درجے کے لوگوں کی کثرت ہو اور اس کے یہاں شان و شوکت کے ساتھ ولیمہ ہو اور دور دراز سے لوگ شرکت کریں تو یقینا یہ مزاج شریعت کے خلاف ہوگا، آج لوگ نکیر نہیں کرتے، مدرسہ سے چھٹی لیتے ہیں اور سینکڑوں کلومیٹر دور صرف نکاح پڑھانے چلے جاتے ہیں، انھیں صاف کہنا چاہیے کہ آمد و رفت اور قیام طعام پر خرچ کرنے سے بہتر ہے کہ وہیںکسی شخص سے نکاح پڑھوا لو، مگر نہیں وہ کیوں کہیں؟ مزاج تو یہ بن گیا ہے فلاں جگہ سے فلاں حضرت نکاح پڑھانے آئے ہیں، امیروں کی دعوت میں شرکت پر اب مقابلہ آرائی کو ہم نے خود دیکھا ہے، پھر تنوعات واسراف سے قطع نظر انتظام کی تعریف و توصیف ماشاء اللہ ! صورتحال یہ ہے کہ دین داروں نے خود ہی نکاح کی فضولیات کو سماجی دباؤ میں قبول کر لیا ہے تو پھر یہ نکاح آسان کیسے ہوگا؟ اس کی آسانی کے لیے ہر فرد کو بالخصوص دین داروں کو آگے آنا ہوگا، رسومات و خرافات والی شادیوں میں شرکت سے اجتناب کرنا ہوگا، اور جہاں شرکت ہو وہاں علی الاعلان نکیر کرنے کو اپنی زندگی کا لازمی جز بنانا ہوگا۔ 

 شادی ایک ضرورت ہے، اسی لئے شریعت نے اسے بہت آسان رکھا ہے، جیسے مسجد میں گئے نماز پڑھ کر آگئے ویسے ہی مسجد میں جائیں اور نکاح کرکے آجائیں، خدا کی قسم کوئی فرق نہیں پڑے گا، بے شمار ایسے واقعات ہیں، متمول اور مثقف ورئیس لوگوں کے واقعات ہیں، پاکستان کے صدر جنرل ضیاء الحق کے بارے میں ہم نے کہیں پڑھا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کا ولیمہ کیا تو چند لوگ ایک کمرے میں فرش پر بیٹھ کر نارمل کھانا کھا رہے تھے بس یہی صدرِ مملکت کے بیٹے کا ولیمہ تھا۔

 یہ بات اور اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ اسلام میں جہیز و بارات کا کوئی تصور قطعی ہے ہی نہیں، اور نہ ہی لڑکی کے ذمہ کوئی دعوت ہے، نکاح کے لیے چند لوگوں کے لڑکی والوں کے یہاں جانے کو ہمارے یہاں مروجہ تصور کے مطابق بارات سے تعبیر کرنا سراسر زیادتی اور غلط استدلال ہے، نکاح کی غرض سے چند افراد لڑکی کے گھر چلے جائیں وہاں مجلس نکاح منعقد ہوجائے یا مسجد میں ہو جائے یا کسی اور مجلس واجتماع میں نکاح ہوجائے، حقیقی مقصد اعلانِ نکاح ہے جو پورا ہو جائے گا، مسجد میں نکاح کی بابت اگر ہدایت ملتی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ وہاں جماعت واجتماع کا امکان رہتا ہے، باقی مروجہ تصور کے مطابق بارات اور اس کے ناز نخرے اور اس کی مدارات کے مطالبات، جہیز اور اس کا مطالبہ یہ سب فضول ہی نہیں ایک ایسی گندی لعنت ہے جس کی بہر صورت حوصلہ شکنی کرنا لازمی ہے، دین داری کو صرف ظاہری صورت اور ظاہری اعمال تک محدود نہیں رکھنا چاہیے، بلکہ دین کے خلاف اقدام پر غیرت آنا چاہیے، سگا بھائی اگر اس طرح کی شادی پر آمادہ ہو تو اس کی حوصلہ شکنی کرنا چاہیے، لڑکی والوں کے ذمہ اسلام نے نہ کوئی دعوت رکھی اور نہ ضیافت، چند لوگ نکاح کے لیے جمع ہوگئے اور اس شخص نے کچھ ضیافت کردی ہے تو یہ اس کی خوش خلقی،اس کا اکرام و مہمان نوازی اور اس کا احسان ہے، مگر ہم نے تو ایسے دین دار دیکھے ہیں جو تقریریں بھی کرتے ہیں اور دین کی تلقین بھی کرتے ہیں، ساتھ ہی لڑکی کے نکاح پر بجائے اس کے کہ عزیز و اقارب کو سمجھاتے، خود ہی بڑھ کے انتظامات کرتے ہیں اور دعوت عام کا انتظام کرتے ہیں، میں قطعاً عوام کی بات نہیں کر رہا ہوں بلکہ میں نے خواص کو دیکھا ہے جو ہر وقت دین دین کی رٹ لگاتے ہیں، ان کو بتاتے دیکھا ہے کہ لڑکی کی شادی تھی ،اور یہ انتظام کیا وہ اہتمام کیا، فلاں فلاں جگہ سے کھانے پکانے والے آئے، اتنی قسم کے کھانے رکھے گئے۔ خوب یاد رکھئے اللہ کا واضح اعلان ہے: ’’إن المبذرین کانوا إخوان الشیاطین‘‘۔ ’’ فضول خرچی کرنے والے یقینا شیطانوں کے بھائی و مددگار ہیں‘‘۔ ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ایسے لوگ روحِ دین اور مزاجِ شریعت سے قطعاً واقف نہیں، صورت دینداروں کی سی ہو سکتی ہے مگر در حقیقت دین حلق سے نیچے نہیں اترا، سماج کے دباؤ میں دب جانے والے لوگ صحیح معنوں میں دیندار نہیں ہو سکتے، ایک شادی میں پانچ دس لاکھ صرف کھانے اور میرج ہال پر خرچ کرنے والوں کو اپنے گھر خاندان کے ضرورت مند نظر نہیں آتے، وہ بیٹیاں، بہنیں اور بھتیجیاں نظر نہیں آتیں جو مالی کمزوری اور سماجی لعنت کے سبب بن بیاہی بیٹھی ہوئی ہیں، بیٹی کی شادی میں دعوت کا اہتمام تو فضول اور شریعت میں اضافہ ہی ہے، ولیمہ کو مسنون سمجھنے والے جو لاکھوں دعوت میں خرچ کرتے ہیں کہیں ان سے رب سوال نہ کر لے کہ آخر تم نے یہ کون سی سنت ادا کی تھی جس میں پیسہ پانی کی طرح بہا دیا تھا، کیا تمہاری نظر امت کی بدحالی، افرادِ خاندان کی کسمپرسی اور گردو پیش کے ضرورت مندوں پر نہیں پڑی تھی، تمہاری دینی حمیت نے تم کو اس کی اجازت کیسے دی کہ تم لاکھوں صرف ایک دعوت پر اڑادو باوجود اس کے کہ تمہارے گردونواح میں لوگ کوڑیوں کو ترس رہے ہوں اور نان شبینہ کے محتاج ہوں۔ 

 جائز ولیموں کا بھی درد ناک پہلو یہ ھیکہ اسمیں امراء و رء ساء کو ہی اکثر بلایا جاتا ہے اور ان ہی پر فخر بھی ہوتا ہے  صحیح مسلم کی حدیث ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’شر الطعام طعام الولیمۃ، یمنعہا من یأتیہا، ویدعی إلیہ من یأباہا‘‘۔ ’’بدترین ولیمہ وہ ہے جس میں امراء واغنیاء کو بلانا فخر سمجھا جائے، انہیں کو ترجیح دی جائے، غرباء ومساکین کا خیال نہ رکھا جائے‘‘۔ 

 ایک رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کا سب سے زیادہ پیسہ عمرہ اور شادی میں خرچ ہوتا ہے، اعدادو شمار میرے ذہن میں نہیں مگر کئی سال قبل میں نے ایسی ایک رپورٹ پڑھی تھی، مشاہدات کے مطابق وہ رپورٹ بالکل درست تھی، ہمارے یہاں عمرے بھی اب ایک فیشن بن چکے ہیں، آپ کے آس پاس ضرورت مند ہوں، نادار ہوں، آپ کے علم میں ایسے لوگ بھی ہوں جو تعلیم نہ حاصل کر رہے ہوں، کاروبار نہ کر پارہے ہوں اور آپ سال میں دو دو تین تین بار عمرے کریں، پورے لاؤ لشکر کے ساتھ جب چاہیں حج اور عمرہ پر پہنچ جائیں، جو نفل آپ وہاں ادا کرنے جا رہے ہیں اس سے اہم نوافل یہاں آپ کے ارد گرد ادائیگی کے منتظر ہیں لیکن جیب سے پیسہ نہیں نکلتا، جو آپ کو ہر سال عمرے پر بھیجتا ہے اس سے آپ کیوں نہیں کہتے کہ اس پیسے سے بے روزگاروں کو روزگار کروا دیجیے، کسی کی شادی کروا دیجیے ، کسی کی تعلیم پر خرچ کر دیجئے، کوئی اسکول بنوا دیجئے، نہیں ہمیں تو عمرہ کرنا ہے، خواہ آس پاس ایسے لوگ موجود ہوں جن کے بچے دودھ اور دوا کے محتاج ہوں، ٹھیک یہی مسئلہ شادی کا بنا دیا گیا کہ غریب آدمی شادی کے بارے میں سوچتا ہی رہ جائے، جو ولیمہ کر ے وہ سالوں سال قرض کا بھگتان کرتا رہے مزید ’’جہنم‘‘ بھرنے والوں کے طعنے بھی سنتا رہے، جہیز اور بارات کے مطالبات پورا کرنے میں گھر زمین سب بک جائے، جہیز کی پالش اتر جائے مگر قرض کا سود تک نہ ادا ہو، آخر یہ کون سی شادی اور کونسا نکاح اور کونسی سنت کی ادائیگی ہے، یہاں تو میں نے صرف مسنون ولیمہ کے اسراف پر گفتگو کی ہے، بارات کے مروجہ تصور کے لیے غلط استدلال کی نکیر کی ہے، لڑکی والوں پر غیر شرعی دعوت کا بوجھ ڈالنے پر گفتگو کی ہے، ورنہ شادی میں اور بہت ساری مشکلات ہیں، رسومات کا انبار ہے، صرف منگنی میں لین دین اور رسومات کا اتنا بوجھ کہ خدا کی پناہ، ارے صرف دیکھنا، پیغام دینا اور تاریخ متعین کرنا اصل ہے، اس کو آخر اس قدر مشکل کیوں بنادیا گیا کہ بغیر طوفانِ رسومات کے بات طے نہ ہو، حد تو یہ ہے کہ دوخاندانوں کو اپنی زبان پر بھروسہ نہیں ہوتا، جب نقد لین دین ہوجائے تب بات پختہ سمجھی جاتی ہے، گویا انسانوں کے درمیان نکاح کا معاہدہ نہیں بازار میں بکری بکرے کی خرید وفروخت ہورہی ہو۔

 خدارا ملت کا درد سمجھیے، اس کی صحیح حالت کا اندازہ کیجئے، سادگی کے ساتھ نکاح کو فروغ دیجئے، ہر جگہ ہر شخص کمر کس لے بلکہ میں تو کہتا ہوں صرف سند یافتہ علماء ہی مکمل طور پر سادگی کی قسم کھالیں تو دیکھیے ماحول کیسے بدلے گا! ترغیب دیجئے کہ دس لاکھ کا ولیمہ کرنے والے دس ہزار کا ولیمہ کریں، باقی رقم اپنے اعزاء و اقرباء اور ملت پر خرچ کریں، آپ جس قدر شاہانہ دعوت کرلیں دو تین دن یا ہفتہ بھر بعد کوئی اس کا ذکر تک نہ کرے گا، شادی ایک بہت آسان کام ہے، ایک مرد وعورت آپسی رضامندی یا اولیاء کی رضامندی سے دو گواہوں کے سامنے ایجاب وقبول کرلیں شریعت کی نظر میں شادی ہوگئی، خطبہ نکاح مستحب ہے، محفل و مجلس نکاح منعقد ہو اور نکاح کا اعلان ہو یہ بھی اچھی بات ہے، لڑکے کی طرف سے سادگی کے ساتھ اعلانِ نکاح کے لیے آس پاس کے اعزا واقربا اور پڑوسیوں کی ضیافت کر دی جائے تو بہت بہتر اور نہ کی گئی تو کوئی ملامت نہیں، یقیناً شادی شادمانی کا موقع ہے، لیکن اظہارِ شادمانی کے لیے اسراف و تبذیر کی گنجائش کہاں، کیا جو غریب پانچ کلو گوشت اور پانچ کلو آٹے سے ولیمہ کرتا ہے اس کے جذبات نہیں ہوتے یا وہ خوشی کا اظہار نہیں کرتا، مومن تو اظہار خوشی میں خدا کا شکر بجا لاتا ہے، اور خدا کا شکر بجا لانے کے لئے کیا کیا کام کیے جا سکتے ہیں آپ سمجھتے اور جانتے ہیں، لاکھوں کی دعوت کا اہتمام کرنے سے ہی خوشی کا اظہار نہیں ہوتا، اظہارِ خوشی اور رب کے شکرانے کا یہ بھی طریقہ ہے کہ آپ اپنی بیٹی کے ساتھ اپنے غریب عزیزوں کی رخصتی بھی شامل کرلیجئے، آپ صرف ایک ولیمہ پر ۵ لاکھ خرچ کرنے کے بجائے اپنے بھائی بھتیجوں کا ولیمہ بھی اسی میں اس طرح شامل کرلیجئے کہ انھیں اجنبیت واحسان کا احساس تک  نہ ہو، مگر سچ یہ ہے کہ ظاہری اور حقیقی دینداری میں بہت فرق ہے، ظاہری دینداری قطعاً دل نہیں بدلتی اور جب تک دل نہیں بدلتا تب تک انسان ظاہری شکل وصورت کے باوجود دنیاداری کے مظاہر کے پیچھے بھاگتا ہے، ہمدردی وغمخواری اور باہمی تعاون وخدمت کے وہ جذبات پیدا نہیں ہوتے جو سیرت کا پرتو اور مومن کی خصوصیت ہیں، خدا کے واسطے نکاح و ولیمہ کو سماجی بوجھ مت بنایئے، دین آسان ہے تو اسے آسان بنائیے، دین کے ذریعے مشروع نکاح کو مشکلات کی بیڑیوں میں نہ جکڑیے، آج کتنے نوجوان اور جوان ہیں جو گھر بھی رکھتے ہیں، کھانے بھر کا کماتے بھی ہیں مگر شادی نہیں کر سکتے، کیوں؟ کہاں سے قرض لائیں، سماج کا پیٹ کیسے بھریں؟ لوگ کیا کہیں گے؟ اچھا بس پچاس لوگوں کو پوچھا؟ اچھا بس گوشت روٹی کھلائی؟ کہاں سے وہ سجاوٹ اور اہتمام کریں جس کو سماج نے لازمی قرار دے دیا ہے، نتیجہ آپ اور ہم سب جانتے ہیں، لیکن سماج کے دباؤ میں عمل سے فرار اختیار کرتے ہیں، جس دن ملت کے غیور ودیندار طبقہ نے سماجی دباؤ کا انکار کرنے کی ٹھان لی اسی دن سے نکاح انتہائی آسان ہوجائے گا۔

iklan
Comments
Commentsyang tampil sepenuhnya tanggung jawab komentator seperti yang diatur UU ITE
  • Stars Rally to Beat Predators in Winter Classic at Cotton Bowl