#حصہ_داری" #حقیقت_یا_فسانہ
✍ڈاکٹر محمد طارق ایوبی
ملک اس وقت ایک خطرناک صورتِ حال سے گزر رہا ہے، محسوس کرنے والے کر رہے ہیں کہ ملک تانا شاہی کی طرف بڑھ رہا ہے، ہم نے اس سلسلہ میں وقتاً فوقتاً آگاہ کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے، اس وقت ملک کا ایک بڑا طبقہ احتجاج کر رہا ہے، اس احتجاج کی ابتدا سے ہم کہہ رہے ہیں کہ مذاہب وبرادری واد سے اوپر اٹھ کر کسانوں کا یہ احتجاج ہے اور یہ مشترکہ مفاد کی خاطر ہے، اس کا یہ لازمی نتیجہ ہوگا کہ اگر یہ کامیاب ہوتا ہے تو بی جے پی کی رعونت، تاناشاہ سوچ اور طاقت میں کمی آئے گی، لیکن اگر وہ اس احتجاج کو بے نتیجہ ختم کرنے میں کامیاب ہوگئی تو پھر بھارت کی تاریخ میں آئندہ کئی دہائیوں تک اور کم از کم جب تک بی جے پی بر سر اقتدار رہے گی کوئی احتجاج نہیں ہوگا اور کوئی آواز نہیں اٹھے گی، آر ایس ایس اپنے ایجنڈوں کو نافذ کرنے کے بہت قریب پہنچ چکی ہیں، ہم ہیں کہ ابھی بھی راہیں تک رہے ہیں، اپنے ہی آشیانوں میں الجھے ہوئے ہیں یا سِرے سے خواب خرگوش میں مبتلا ہیں۔
عرض یہ کرنا ہے کہ اب کسانوں کے قائدین بھی برسرمحفل یہی کہہ رہے ہیں کہ اگر یہ آندولن یوں ہی ختم ہوگیا تو پھر آئندہ کوئی آندولن نہیں ہوگا، یہ احتجاج صرف زرعی قوانین ختم کرانے کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ تانا شاہی کو روکنے اور جمہوریت کو بچانے کے لیے بھی ہے، اس لیے عام لوگوں کو اس کی حمایت کرنا چاہئے اور اسے طاقت پہنچانا چاہیے۔
ملک کی صورتِ حال یہ ہے کہ نئی ایجوکیشن پالیسی کو کابینہ نے ہری جھنڈی دے دی ہے، اسکا نفاذ طے سمجھیے، اسکے نفاذ کے بعد ہماری قوم اور ہمارے مدارس پر کیا اثرات پڑیں گے، اپنی ناقص سوچ کے اعتبار سے اس جانب ہم متوجہ کرچکے ہیں، ابھی تازہ اعلان نظر سے گزرا جو اپنے آپ میں انتہائی خطرناک اقدام ہے، جوائنٹ سکریٹری لیول اور ڈائریکٹر لیول پر ۳۰ تقرّریاں صرف انٹریو کی بنیاد پر کی جائیں گی، مطلب ہر سال آئی اے ایس بننے والوں کی تعداد کا ۲۰ فیصد حصہ صرف اپنی مرضی سے بھر لیا جائے گا اور اس طرح ملک میں یوپی ایس سی کے مضبوط نظام کو ایک طرح سے غیر موثر بنادیا جائے گا، ظاہر ہے یہ تقرّریاں صرف اس لیے اس طور پر کی جارہی ہیں کہ پالیسی سازی اور قانون سازی میں رزرویشن یا صلاحیتوں کی بنیاد پر پہنچنے والے بعض وہ لوگ جو سماجی ونظریاتی اعتبار سے برہمنی سوچ سے اختلاف رکھتے ہیںاور برہمنیت کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں وہ نہ بنیں، یہی نہیں صورتِ حال اس سے زیادہ خطرناک ہے جہاں حکمراں جماعت بالآخر دستور کی تبدیلی کا اپنا عزم پورا کرکے رہے گی، جو لوگ پُر فریب نعروں میں مگن ہوجاتے ہیں وہ بھول جاتے ہیں کہ آر ایس ایس اس ملک کے سیکولر دستور کو ہی نہیں مانتی اگرچہ بعد میں دکھاوے کے لیے تسلیم کرنا بھی شروع کردیا، لیکن آج بھی کردار وعمل سے دستور کی مخالفت کی جارہی ہے۔
دانشمندی کی بات یہ ہے کہ اس وقت ملک کو اس صورتِ حال نکالنے کی بھرپور کوشش کی جائے، کیوں؟اس لیے کہ اس ملک میں آزادی کے بعد سے اب تک کا جو سفر ہے اس نے مسلمانوں کو بالکل الگ تھلگ کردیا ہے، اگر اس کا بنیادی ڈھانچہ باقی رہتا ہے تو اس کا فائدہ سب کو ہوگا لیکن کیا یہ واقعہ نہیں کہ اگر اس کا بنیادی اور دستوری ڈھانچہ منہدم ہوتا ہے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان ہمیں اٹھانا پڑے گا، کیا سی اے اے اور این آر سی کے ذریعہ اس کا واضح عندیہ نہیں ملا، پھر کیا ہماری طرح کوئی اور اپنے تشخص اور اپنی تہذیب وثقافت کو لے کر حساس ہے یا ہوسکتا ہے، پھر یہ بھی بہت صاف بات ہے کہ آزادی کے بعد جو منظر نامہ بنا اور مسلم قیادت نے جس طرح سے خود کو کانگریس میں ضم کرلیا اس کے نتیجہ میں ’’حصہ داری‘‘کا امکان ختم ہوگیا، ایک مرتبہ صحیح معنیٰ میں ڈاکٹر فریدی وغیرہ نے انگڑائی لی اور کچھ ماحول بھی بنا مگر کانگریسی ذہنیت کے لوگوں نے اس کوشش کو تاریخ کا دفینہ بنادیا، آج نفرت جس حد تک جا پہنچی ہے اس کے نتیجہ میں ’’حصہ داری‘‘ اس معنیٰ میں جس کا جنون سوار ہے محض ایک سراب ہے ، اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں، مسلم نام کے ساتھ سیاسی پارٹی وہ بھی ’’ایسا مسلم نام جیسے مجلس اتحاد المسلمین‘‘ جس کی شناخت ملک میں خود اس کے بیانات اور کچھ میڈیا کی کرم فرمائی سے فرقہ پرستی کی بن گئی ہو، اس کی قیادت میں حصہ داری کی بات کرنا کون سی دانشمندی ہے، ستر سال کی تاریخ میں آپ نے ایک کو سیکولرزم کی سند دی اور ایک کو کمیونلزم کی، گویاآپ نے خود ہی اپنے دوست ودشمن کا تعین واعلان کردیا، جو کہ کسی بھی ملک میں بسنے والی کسی بھی اقلیت کی سب سے بنیادی غلطی ہے، پھر تماشا یہ ہے کہ اب تک جسے آپ پانی پی پی کر دشمن جان وایمان کہتے رہے اس کے بر سر اقتدار آتے ہی آپ کو ’’حصہ داری‘‘ کا خیال آنے لگا اور یہ خیال اس زور سے ستانے لگا کہ اپنے صوبہ اور اپنے گہوارے میں غیر موثر کردار اور بغیر کسی حصہ داری کو ثابت کیے آپ ملک کے ان صوبوں میں پہنچ گئے جن کا ملکی سیاست میں اہم کردار ہے اور جہاں محض مذہب وبرادری کی بنیاد پر ووٹنگ کی جاتی ہے، یہ ایک اہم سوال ہے کہ ۲۰۱۴ء میں بھاجپا کی لہر کے ساتھ ہی آپ کو یہ خیال کیوں ستانے لگا اور مودی جی کا چہیتا میڈیا آپ کو اس قدر کیوں پرموٹ کرنے لگا۔
حصہ داری کا کس قدر امکان ہے، اس کی کوئی حقیقت بھی ہے یا یہ محض ایک فسانہ ہے، بالکل واضح جواب یہ ہے کہ جس جنون کے ساتھ حصہ داری کا نعرہ لگایا جارہا ہے وہ محض سراب ہے، اس کا فائدہ بہت کم بلکہ بالکل نہیں کے برابر ہے البتہ نقصانات فوری اور شعوری بھی ہیں اور دور رس اور غیر شعوری بھی، بہار میں اگر آپ کو ۵ سیٹیں مل گئیں تو بھی آپ ودھان سبھا میں کون سا موثر کردار ادا کرلیں گے، ہاں یہ ضرور ہوا کہ سیمانچل سے پچھڑے طبقہ کا بی جے پی نے نائب وزیرا علیٰ بناکر آئندہ کے لیے سیمانچل کی مسلم سیاست کا گلا گھونٹ دیا، سیمانچل میں صرف کشن گنج ایسا ہے جہاں تنہا مسلم اپنے ووٹ سے کسی کو بھی کامیاب کرسکتے ہیں لیکن اس کے علاوہ دیگر سیٹوں پر بہرحال پچھڑے لوگوں کا کچھ ووٹ درکار ہی ہوتا ہے، نائب وزیر اعلیٰ کا عہدہ ان ۵ سیٹوں پر ایسا بھاری پڑے گاکہ آئندہ الیکشن میں انھیں بچانا بھی مشکل ہوگا، کیونکہ پچھڑے طبقات سے جو ووٹ مسلم امیدواروں کو ملتے تھے اس داؤ کے بعد اب وہ بی جے پی کے کھاتے میںجائیں گے ، یوپی کی سیاست میں تقریباً سو سیٹوں پر مسلم ووٹ موثر ہے، ایسا کہا جاتا ہے، مگر زمینی سیاست کے بغیر محض نعروں اور تقریروں کی بنیاد پر اس کا فائدہ بھی نہیں مل سکتا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ دیگر پارٹیاں آسانی سے یہ فائدہ اٹھانے بھی نہیں دیں گی، پھر بھی مان لیجئے کہ اگر آپ بیس پچیس سیٹیں حاصل کرلیں تو ودھان سبھا کی ساری جماعتیں آپ کے خلاف متحد ہوجائیں گی، پھر آپ کیا کریں گے سوائے اس کے کہ احتجاج کرتے رہیں اور مزید طعنے جھیلتے رہیں، سب کو معلوم ہے کہ گجرات کے گزشتہ انتخابات میں بی جے پی کو سخت مقابلہ کرنا پڑا تھا، بنگال وہ واحد ریاست ہے جہاں بی جے پی کی دال اب تک نہیں گلی بلکہ گودی میڈیا کے مطابق آخری اور واحد عورت ہے جو بی جے پی کے خلاف کھڑی ہے، یوپی کے جاٹوں نے علانیہ کہہ دیا کہ ہم نے بی جے پی کو ووٹ کیا مگر اس نے دھوکہ دیا، کسان آندولن کے پسِ پردہ اجیت سنگ کی سیاست دوبارہ شباب پر ہے، بی جے پی کی سیاسی زمین میں دراڑ پڑی ہے، لیکن عین موقع پر وہ اپنا کامیاب اور استحصالی ’’ہندومسلم کارڈ‘‘ کھیلے گی اور کامیاب ہوجائے گی، اس کے لیے آپ کا چہرہ خوفناک بناکر پیش کیا جاتا ہے اور آپ کی زبان بھی ملک کے سیکولر مزاج کے خلاف چلتی ہے، بلکہ بسا اوقات وقت کے اہم مباحثوں کا رخ غیر ضروری بحثوں کی طرف موڑ دیتی ہے، جب ارنب گوسوامی کے چیٹ کا معاملہ گرم ہونا چاہیے تھا تو ہم اور ہمارا میڈیا اعظم گڑھ اور جون پور کی مسلم سیاست میں الجھے ہوئے تھے، بہرحال بالآخر نتیجہ یہ ہوگا کہ سارے، ہندو اپنے دکھ درد اور کسانی کھیتی سب بھلاکر آپ کے خلاف ہندو کو نہیں ہندتوا کو ووٹ کریں گے اور قصہ تمام ہوجائے گا، ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ بھارت جیسے ملک میں ہم کو ہندو اور ہندتوا میں فرق کرنا ہوگا، ہندو کو ساتھ لے کر ہندتوا کو شکست دی جاسکتی ہے مگر ہندتوا کی روش اختیار کرکے صرف اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوسکتا، آپ کہہ سکتے ہیں کہ بی جے پی کے پاس پولرائزیشن کے بہت سے طریقے ہیں، بالکل بجا ہے، مگر جتنا آسان آپ کے نام پر پولرائز کرنا ہے اتنا کچھ اور نہیں، چین وپاکستان کی سچائی سے بڑی حد تک عوام واقف ہوئے ہیں، مذہبی افیم کا نشہ کسان آندولن سے کچھ اترا ہے، مگر ہندو مسلم منافرت کی چربی کسی وقت بھی چڑھ سکتی ہے، اسکو پگھلانے میں ہم جس قدر موثر اقدام کریں گے اتنا ہی ہمارے لیے فائدہ مند ہوگا۔
اب سوال یہ ہے کہ مسلمان کیا کریں؟ کہاں جائیں؟ بلکہ یہ سوال بعض بہت تجربہ کار اور دیدہ درلوگ بھی کرنے لگتے ہیں ، پہلی بات یہ سمجھ لیجئے کہ ہم ’’حصہ داری‘‘ کے بالکل خلاف نہیں، ہم بھی یہ سہانا خواب دیکھتے ہیں، لیکن طرزِ عمل اور طریقہ عمل میں اختلاف رکھتے ہیں، ہمارا ماننا ہے کہ اقلیتوں کو کسی کا غلام نہ ہوکر موقع پرست ہونا چاہئے اور اپنی شرطوں کی بنیاد پر وقت کے حساب سے مناسب وحسبِ حال فیصلہ لینا چاہئے۔ فی الحال مسلمانوں کی اولین ذمہ داری اور ترجیح یہ ہے کہ وہ طاقت کے ارتکاز سے ملک کو بچائیں،طاقت کا ارتکاز ملک کو Single Party Rule کی طرف لے جارہاہے جو کہ جمہوریت کے لیے خطرناک تو ہے ہی البتہ اس کی سب سے زیادہ ہمیں چکانی پڑ سکتی ہے ،بھارت کے فیڈرل سسٹم سے فائدہ اٹھاکر ہر صوبہ میں اس پارٹی یا اس اتحاد کو کامیاب کریں جو بی جے پی کو شکست دینے کی اہلیت رکھتا ہو، یہ اس وقت کے حالات کا ترجیحی تقاضا ہے، مستقبل کے لیے مسلمانوں کو ملک کی سیاست میں اپنی یقینی حصہ داری کے لیے بلا تفریق ایک ایسا سیاسی پریشر گروپ تشکیل دینا چاہئے جس کی باگ ڈور تو ان کے ہاتھ میں ہو لیکن اس پر فرقہ پرستی کا لیبل نہ لگا ہو، اس کا سب سے پہلا تقاضا ہوگا کہ تمام سیاسی اور غیر سیاسی مؤثر گروپ محض سیاسی نقطۂ نظر سے متحد ہوں اور پھر وہ اپنے منصوبہ اور اپنے شرائط کی بنیاد پر ہر صوبہ کی سب سے بڑی پارٹی کو اپنا تعاون دیں اور اپنی پسند کے امیدواروں کو کامیاب کریں، اس وقت بھی مسلم گروپ ان قیادتوں سے ملاقات کریں اور اپنے شرائط رکھیں، جن کو معلوم ہے کہ مسلم ووٹ کے بغیر وہ بر سر اقتدار نہیں آسکتے، واقعہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک ہم نے غیر مشروط حمایت کی ہے، یا بعض شخصیات وگھرانوں نے محض اپنے اثر ورسوخ کی خاطر ملت کو مختلف جماعتوں کے پاس گروی رکھا ہے ، لیکن اب واقعی ’’حصہ داری‘‘ کو یقینی بنانے کے لیے مذکورہ بالا پروگرام پر عمل ضروری ہے، اور اسکی خاطر یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے مفاد کی خاطر مذہبی جذبات کا استعمال کرنے والے سیاسی و نیم سیاسی لوگوں سے دامن چھڑایاجائے اس کے ساتھ ساتھ ملک میں ایکٹیو سیاسی حصہ داری کے لیے ہماری تنظیموں کو سیاسی شعور کی بیداری پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی، لوکل پالیٹکس میں اپنے تربیت یافتہ امیدواروں کو اتارنا ہوگا، علاقائی انتخابات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، وہیں سے زمینی طاقت پروان چڑھتی ہے، اپنی قوم کی ترقی کے لیے بھی علاقائی انتخابات بہت اہم ہوتے ہیں، مگر ہماری توجہ صرف پارلیمنٹ اور ودھان سبھا پر رہتی ہے، زمین سے جڑی محنت اور زمینی طاقت کے حصول کے بارے میں ہم کبھی سوچتے ہی نہیں، باقی ملک کی جغرافیائی، مذہبی اور موجودہ نفرت انگیز صورتِ حال میں’’ علیحدگی پسند سیاست‘‘ اور ’’اپنی قیادت‘‘ کا نعرہ خواب ہے، سراب ہے، فریب ہے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں، آنے والا وقت ہماری بات کو مزید وضاحت سے سمجھا دے گا۔
اس وقت کے ملکی منظر نامہ کو دیکھتے ہوئے ملت کے باشعور طبقہ کی ذمہ داری دوبالا ہوجاتی ہے کہ ایک طرف تو اسے اپنی قوم کو پُر فریب استحصالی نعروں سے بچانا ہے، دوسری طرف اب اس کو بے دام غلام نہ بننے دینے کی ذمہ داری بھی نبھانا ہے، جنون سے فائدہ اٹھانا چاہیے مگر جنون اگر حکمت سے خالی اور بے لگام ہو تو سوائے نقصان کے اور کچھ ہاتھ نہ آئے گا، فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ آپ کو کیا کرنا چاہیے، البتہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ خوش کن نعرے اور پر فریب لفاظی صرف دشمن کی خصوصیت نہیں ہوتی بلکہ دوست بھی اس کا استعمال بہت خوبصورتی سے کرکے غیروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔