#ہندوستان_کو_زِندان_بنانے_کی_ناکام_کوششیں
اس وقت پوری دنیا میں بھارت کی سَنگھی ڈکٹیٹرشپ چرچا میں ہے، کسان آندولن کی حمایت میں مہم چلانے کی وجہ سے دیشا روی نامی ۲۱ سالہ لڑکی کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیاگیاہے، دیشا نامی اس بچی کی گرفتاری کا سخت اذیت ناک پہلو یہ ہیکہ اسے ۵ دن کی پولیس ریمانڈ میں دیا گیاہے۔
جب سے یہ خبر باہر آئی ہے دنیا بھر میں انصاف پسند اور انسانیت نواز حلقے بھارت کی ہندوتوا سرکار کے مغرور مزاج کےخلاف آواز بلند کررہےہیں، صنفِ نازک کے خلاف ایسی بربریت پر چہار جانب سے تنقید ہورہی ہے
لیکن بات صرف دیشا کی نہیں ہے، دیشا سے پہلے نودیپ کور نامی 24 سالہ لڑکی جوکہ مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرتی تھی اسے ہریانہ کی بھاجپا سرکار نے جیل میں ڈال دیا اور جیل میں نودیپ کے ساتھ مار پیٹ کی گئی،
دوسری طرف یوگی آدتیہ ناتھ کی اترپردیش پولیس نے رامپور سے سجادہ نشین فرحت جمالی کو گرفتار کر 14 دنوں کی جوڈیشل کسٹڈی میں بھیج دیا ہے، فرحت جمالی صاحب کا جرم یہ تھا کہ وہ این آر سی اور سی اے اے کیخلاف احتجاجی سرگرمیوں میں شریک تھے
وہیں ہاتھرس معاملے میں فساد بھڑکانے کا الزام لگاکر کیمپس فرنٹ آف انڈیا سی ایف آئی کے لیڈر رؤف شریف کو اسپیشل ٹاسک فورس نے گرفتار کرلیا ہے اور انہیں متھرا لایا جارہا ہے
اس سے پہلے شاہین باغ احتجاج اور سی۔اے۔اے مخالف احتجاجی تحریکات کی وجہ سے، شرجیل امام، خالد سیفی آصف، عمر خالد، گل فشاں سے لیکر میران حیدر تک متحرک مسلم نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد جیلوں میں بند ہے
بھیما کورے گاؤں کیس کے نام پر پروفیسر آنند، سے لیکر پروفیسر ہنی بابو سمیت بہت ہی سینئر دلت اور کمیونسٹ اہلِ علم و دانش اور ایکٹوسٹ حضرات کی ایک بہت بڑی جماعت کو قید کردیاگیا ہے
اور پھر اب، کسان۔آندولن کی حمایت کے جرم میں دلتوں اور سکھوں صحافیوں اور احتجاجی کارکنوں کو جیل میں ڈالا جارہاہے
تقریباﹰ ان سبھی کو یو اے پی اے یا ناسا جیسے سنگین ایکٹ کے تحت قید کیاگیاہے
ملک سے بغاوت اور غداری کا الزام لگا کر حریت پسند بھاجپا مخالف انسانوں کو جیلوں میں بھرنے کا جو سلسلہ مسلمانوں سے شروع ہوا تھا اس نے اب اپنی بھوک کو بڑھا دیا ہے، وہ ہر اُس شخص کو نگل رہےہیں جو کسی بھی طرح برہمنی استعمار کیخلاف خطرہ ہوسکتاہے، جو آر ایس ایس کے سامراج کو ٹکر دے رہا ہو، جو منو وادی ہندوتوا طاقتوں کےخلاف لوگوں کو بیدار کرے ان ظالموں کے انسانیت سوز عزائم کو آشکار کرے، مظلوموں کو ہمت دلائے اور میدان میں اتارے وہ سب کے سب نشانہ بنائے جارہےہیں، ٹوئیٹ کرنا، مضمون لکھنا یا نعرے لگانا یہ وہ عمل ہیں جو کبھی انڈین پینل کوڈ کی دفعات میں جرم نہیں شمار ہوئے انہیں اب ڈائریکٹ دیش دروہ قرار دیا گیا ہے
بھاجپا اکثریت میں ہے، اس کے پاس طاقت ہے، پولیس، فوج اور ہتھیار ہے، لیکن وہ نہتی زبانوں اور قلم و کاغذ سے خوفزدہ ہے، یہ خوف دراصل ہٹلر اور گوڈسے کی میراث ہے، یہ ہر ظالم کا فطری ورثہ ہے، وہ سب کچھ پر قابض ہونے کے باوجود ظلم و زیادتیاں کرنے کے باوجود، مظلوموں کی انگڑائی سے ہمیشہ ڈرے سہمے رہتےہیں _
یہاں عقلمندی اور دانشمندی کا تقاضا یہ ہیکہ، حالیہ گرفتاریوں کیخلاف ایک محاذ قائم کیاجائے، تمام مظلوموں کو ایک جگہ جمع کر مضبوط تحریک برپا کی جائے، اپنے اپنے قیمتی دماغوں اور افراد کو رہا کروانے کی بھرپور آواز بلند کی جائے، گرفتاریوں کا یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے، ہندوستان کو زندان بنایا جارہاہے لیکن یہ کوششیں ناکام ہوں گی، البتہ ان گرفتاریوں کےخلاف ایک ملک کو زندان بنائے جانے کیخلاف ایک عالمگیر انسانی حقوق اور آزادی کی تحریک حکومتِ ہند اور آر۔ایس۔ایس زدہ بھارتی پولیس سسٹم کےخلاف چلائی جاسکتی ہے، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کی عدالتوں سے انصاف نا ملنے کو بھی اس میں شامل کیاجاسکتا ہے، کیونکہ پورے ملک کو جیل میں کبھی نہیں ڈالا جا سکتا، جیل کی دیواریں حریت پسندوں کو زیادہ دیر تک قید نہیں کرسکتی ہیں، یقینًا مظلوم باہر آئیں گے اور ظالموں کو جیل بھیجا جائےگا، لیکن ظالم جیل تب جائےگا جب مظلوم بیدار، متحد اور منظم ہوگا وگرنہ ظالمانہ گھیرا بندی طویل ہوتی رہے گی
دیشا روی کی گرفتاری کیخلاف ردعمل کا طوفان مودی سرکار کی مزید رسوائي کا باعث ہے لیکن بات صرف دیشا کی رہائی پر ہی مرکوز رہ جائے تو حاصل کچھ بھي نہیں, سرکاری ٹرائل کےتحت دیگر گرفتار ہونے والے اور جیل جانے والے بھی دیشا کے ہی برابر ہمدردی یکجہتی اور حمایت کے مستحق ہیں، لیکن حل کرنے کا سوال یہ ہیکہ، دیشا، نودیپ کور اور دیگر کی گرفتاریوں کو اُن کی کمیونٹی نے جس طرح سنجیدگی منصوبہ بندی اور قوت سے اٹھایا ہے ویسے ہی مسلمانوں کی گرفتاری پر مؤثر اقدامات کیوں نہیں ہیں ؟
سمیــع اللہ خان
#DishaRavi
#KisanAndolan