#رقص_زنجیر_پہن_کر_بھی_کیا_جاتا_ہے" کیا آج، آپ نے #شاہد__اعظمی کو یاد کیا؟ "
آج کا دن وطنِ عزیز میں مسلمانوں کے عظیم ترین بے لوث ہمدرد ، شاہد اعظمی کے بہیمانہ اور بزدلانہ قتل کا دن ہے، جو اپنی قوم کی خاطر لڑتے ہوئے آزاد اور جمہوری کہلانے والے بھارت میں شہید ہوگیا_
شاہد اعظمی وہ نام ہے جس نے بھارت کے متعصبانہ اور ظالمانہ سسٹم کو آئینی لڑائی کا چیلنج دیا تھا
شاہد اعظمی خود سسٹم کے مظالم کا شکار ہوا، جیل گیا، لیکن اس نے پاؤں کی زنجیروں کو راہ کا روڑا نہیں بننے دیا شاہد نے جیل ہی میں اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کی اور وکیل بنا
شاہد اعظمی نے جیل سے رہا ہونے کے بعد ایک آہنی عزم کا اعلان کیا، انہوں نے مسلم نوجوانوں پر دہشتگردی کے جھوٹے لیبل کےخلاف قانونی اور عدالتی جنگ چھیڑ دی
وہ ایک ایسا وقت تھا جب کانگریسی عہد میں ہندوستان کے آئینی اداروں میں برہمنی مہرے گھس چکے تھے، اور آر۔ایس۔ایس کی جانچ ایجنسیوں نے مسلم نوجوانوں پر " آتنک واد"کا عفریت تھوپ دیا تھا
اس وقت افسانوی انڈین مجاہدین، سے لیکر جیشِ محمد اور لشکر طیبہ کے نام پر بھارت بھر میں مسلم نوجوانوں پر کریک ڈاؤن کرکے پوری مسلم کمیونٹی کو مہلک احساس تحفظ میں مبتلا کردیاگیا تھا
پوٹا، مکوکا اور ٹاڈا جیسے قوانین یکطرفہ طورپر مسلمان نوجوانوں کو برباد کرنے کے ليے دھڑلے سے استعمال کیے جارہے تھے
اس وقت انصاف اور حقوق انسانیت کی دعویدار اور نام نہاد سیکولر وکیلوں کی کئی ملک گیر تنظیموں نے ملک کے کئی صوبوں میں دہشتگردی کے نام پر گرفتار کیے گئے مسلم نوجوانوں کے ساتھ گھناﺅنے تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے لیے عدالت میں مقدمات نہیں لڑنے پر اتفاقی تجاویز پاس کی تھیں
ایسے وقت میں جیل سے رہا ہوکر آنے والے اس عظیم نوجوان نے اپنی قوم پر مسلط اس دہشتگردی کے جھوٹے بھوت کے خلاف انصاف کی لڑائی کا اعلان کیا
یہ اعلان ایک مشن بن گیا، مسلم نوجوانوں میں انصاف کی لڑائی کی امنگ بننے لگا، جدوجہد کا استعارہ بن گیا، محض 7 سالوں میں شاہد نے 17 ایسے افراد کو رہا کروایا جن پر دہشتگردی کا مقدمہ چل رہا تھا
شاہد اعظمی کی جانباز جدوجہد نے ہندوستان کی ایجنسیوں کا مکروہ چہرہ پوری دنیا کے سامنے تار تار کردیا تھا
شاہد اعظمی نے ہمارے ملک کے سسٹم میں گھسے ہوئے مسلم دشمن متعصب زہر کو اینٹی ڈوز دینا شروع کردیاتھا
یکے بعد دیگرے کامیابیوں سے سسٹم اور ایجنسیوں کا نسل۔پرستانہ اور مکروہ ترین چہرہ بےنقاب ہورہا تھا
ہندوستان میں مسلم نوجوانوں پر دہشتگردی کا جھوٹا عفریت ننگا ہوچکا تھا
یہ اتنی بڑی کامیابی تھی کہ سسٹم میں موجود ملک دشمن عناصر کا وجود تڑپ اٹھا، انہوں نے ایک بار پھر آئینی اصولوں کے ذریعے اپنے خلاف جاری انصاف کی اس تحریک کو غنڈہ گردی سے ختم کرنا چاہا،
اور بالآخر شاہد کو قتل کردیاگیا
اور ظالموں نے تسلیم کرلیا کہ اصولوں کے راستے سے وہ کبھی جیت نہیں سکتےہیں، وہ آمنے سامنے کی کسی بھی لڑائی میں ٹھہر نہیں سکتےہیں
شاہد اعظمی کی یہ حصولیابی معمولی نہیں بلکہ ٹھوس تاریخی انقلاب تھیں جس نے بھارت کے پولیس سسٹم، تفتیشی ایجنسیوں، جوڈیشل مراحل، میڈیا ٹرائل سے لیکر وکیلوں کی بار ایسوسی ایشن تک کے منظم اور منصوبہ بند بے رحم کھیل کو پوری طرح سے چیلنج کررکھاتھا
ان تمام میں گھسے ہوئے جَن سنگھی برہمن عناصر کی ریشہ دوانیوں کو افشاء کردیا تھا
شاہد اعظمی کی آبائی نسبت دیارِ علم و ہنر اعظم گڑھ سے ہے جو اپنی بہادر اسپرٹ کے لیے بھی جانا جاتا تھا
ان کی پیدائش ممبئی کے دیونار علاقے میں ہوئی تھی اور وہیں ان کا بچپن گزرا
شاہد صرف ایک ماہر قانون وکیل نہیں بلکہ وہ ایک علم دوست، شریف النفس نظریاتی اور مطالعاتی انسان تھے، ان سب کے ساتھ ساتھ ان کی خود ارادیت نے انہیں ۳۰ سال کی عمر میں ہی فولادی شخصیت بنا دیا تھا
شاہد اعظمی نے سایہء شاہ سے بغاوت کی،فاشسٹ ظلم و ستم کے ایوانوں کو للکارا ہی نہیں بلکہ انہیں شکست بھی دی،
شاہد اعظمی نے ثابت کیا کہ ظلم کے کوڑوں سے، غنڈوں کی گولیوں اور قاتل حکمرانوں کی ٹولی سے بھی کہیں زیادہ طاقتور کوئی چیز ہے تو وہ ہے زنجیر عدل کی جھنکار، سطوتِ شاہی ہو کہ جلالِ پادشاہی اگر سر اٹھا کر جینے کا عزم پیدا ہوجائے تو یہ سب بونے ہوجاتے ہیں
شاہد اعظمی ظلم کے خلاف انصاف اور غلامی کے خلاف حریت کا استعارہ ہے، شاہد اعظمی کی جدوجہد رہنمائی کرتی ہے اور اس کی شہادت درس دیتی ہے، اس کی شہادت بھارتی سسٹم کے اسلاموفوبیا کی گواہ ہے اور یہ بتلاتی ہیکہ ناانصافی، نسل پرستی اور اسلام۔دشمنی پر قائم یہ نظام انصاف کے راستوں کا سراب تو دکھاتا ہے لیکن اس پر قائم رہنے کی اجازت نہیں دیتا، شاہد اعظمی کی زندگی اور موت دونوں میں پیغام ہے، اس کے قاتلوں کو کیفرکردار تک نا پہنچا کر سسٹم نے بھی اپنی لائن واضح کردی ہے، اور اس سے وابستہ تنظیموں نے بھی اسے فراموش کر اپنی عارضی حیات کو جیسے مشغول رکھا ہے، لیکن شاہد زندہ ہے، زندہء جاوید ہے، اس سے فرق نہیں پڑتا کہ اصحابِ مسند کے یہاں کیا ہے؟ لیکن، ہم اپنے جانباز شہیدوں کو کبھی نہیں بھولتے _
شاہد کی یہ حصولیابیاں وطنِ عزیز کی تاریخ کا ایک انمٹ باب بن چکی ہیں انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائےگا، لیکن سوال یہ ہیکہ شاہد کی قوم نے اسے کس قدر یاد رکھا ہے؟ جس کے لیے شاہد نے 32 سال کی عمر میں ابدی زندگی کی شہادت کو قبول کرلیا؟ شاہد کے مشن کو کسی نے آگے بڑھایا؟ اور کیا خود شاہد اعظمی کے خون کو انصاف کا خراج پہنچا ہے؟
" کیا آج آپ نے شاہد کو یاد کیا؟ "
شاہد اعظمی کو ہمتوں کا سلام، ان کی روح کو عزیمتوں کا خراج!
جس نے بد سے بدتر حالات میں بھی یہ تاریخ رقم کی اور ہمیں سکھا گیا کہ:
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
✍ از قلم: شاہد اعظمی کو اپنا ہیرو ماننے والوں میں سے ایک _
سمیع اللّٰہ خان
بموقع: ۱۱ فروری ۲۰۲۱ یومِ شہادت شاہد اعظمی