مسجد کا آخری منزلہ
الحمدللہ شہر مالیگاؤں کا نام لکھتے ہی مساجد و میناروں کا شہر لکھنا ضروری سا ہو جاتا ہے۔کئی دہائیوں پہلے جب ہمارے شہر میں نماز جمعہ کی ازان کی آواز کے ساتھ ہی ہم اپنے گلی محلہ کے ہم عصر احباب کے ہمراہ ایک دوسرے کو آواز دیتے ہوئے مسجد کی طرف دوڈ پڑتے تھے ۔اور جلدی جلدی وضو کرکے اپنی جگہ مسجد کے آخری منزلہ پر جاکر بیٹھ جاتے اگر امام صاحب کے بیان کے دوران کوئی بچہ شور یا مستی کرتا تو اس کو گلی محلے کے سمجھ دار اور سلجھے لوگ منع کرتے اور ڈانٹ ڈپٹ کر خاموش کر دیا کرتے تھے۔مگر اس کے برعکس آج اس طرح کی حرکتیں ہونے پر ہمارے بچوں کو کوئی بولنے سمجھانے والا یا ڈانٹ ڈپٹ کر نے والا نہیں ہے اگر کوئی کسی کے بچے کو کسی طرح کی شرارت کرنے پر مسجد میں منع کرے تو اس بچے کے والدین لڑنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔
یا اللہ یہ کیسا دور ہے کہ کسی کو برائی سے روکنے والا خود برا ہوجاتا ہے
آج ہم جب آپنے آس پاس کی مساجد کا جائزہ لیتے ہیں تو خصوصی طور پر نماز جمعہ میں جب آخری منزل پر شور شرابے اور دھینگا مستی کرتے دیکھائی دیتے ہیں مگر کوئی بولنے سمجھانے کو تیار نہیں۔اتنے پر بس نہیں پہلی رکعت کے رکوع سے لیکر سلام پھیرنے تک امن رہتا ہے۔اود سلام پھیرنے کے بعد بچے تو بچے نوجوان اور ادھیڑ عمر کے افراد بھی غول اور حلقہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں اور سارے عالم کی خبروں پر تبصرے ہونے لگتے ہیں۔یہاں وہاں کی بےجا باتیں شروع ہوجاتی ہیں۔کیا ان افراد کو مساجد کی حرمت کا پتہ نہیں ہے کیا ان کو نماز جمعہ کی اہمیت نہیں معلوم کیا علمائے کرام اس ضمن میں بیان نہیں کرتے کیا ہم اس تعلق سے مضامین نہیں لکھتے کیا ان اشخاص کو شعور نہیں۔اس جانب کون توجہ دےگا۔ ضرور ہم کو ہی اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ جمعہ اور اس کے علاؤہ کی پنج وقتہ نمازوں کی پابندی مسجد کے احترام کے ساتھ ادا کرنا ہم پر لازم ہے
اللہ پاک ہمیں نیک عمل کی توفیق عطا فرمائےآمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم