از قلم : عام شہری
آج شہر کی حالت جس قدر خستہ حال ہے شاید ہی مالیگاوں کی تاریخ میں اس درجہ خستہ حال ہوئی ہو۔ باالخصوص شہر کا سینٹرل حلقہ جس بُرے دور سے گُزر رہا ہے اس کی مثال ڈھونڈنے سے بھی نا ملے۔
وجہ ؟؟؟؟؟
عوام کی بے حسی، حرام خوری ( اتی کرمن ) اور شخصیت پرستی
سیاستدانوں کی حرام خوری، انا پرستی، خود غرضی اور آپسی بندر بانٹ اور ان سب سے بڑھ کر مسجد و میناروں کے شہر کے علماء کی بے حسی، بے بسی، چشم پوشی اور امر با المعروف نہی عن المنکر سے راہ فراری۔
شہر کی عوام تبدیلی تو چاہتی ہے لیکن اس کیلئے کسی قسم کی قربانی دینا نہیں چاہتی جس میں خاص طور پر کئے گئے اتی کرمن کی قربانی ہے۔ اس کے علاوہ شخصیت پرستی اور اندھ بھکتی اس حد تک رگوں میں شامل ہوگئی ہے کہ اپنے لیڈروں کی غلاظت بھی جواہرات لگتی ہے۔
شہر کی تمام ہی سیاسی پارٹیوں کے ورکروں کا یہی حال ہے۔ کوئی اپنے سیاسی آقا کی غلطی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ان غلطیوں کو اچھائی بناکر پیش کرنا اپنا فرض عین سمجھتے ہیں۔
اب ایسے ورکروں سے شہر اور آنے والی نسلوں کیلئے کس حد تک امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے سیاسی آقاؤں سے شہر کی بہتری کا کام کروا سکیں۔
شہر کے ڈھیٹ سیاستداں جس موٹی چمڑی کا عملی نمونہ پیش کررہے ہیں اس کے آگے تو گینڈے کی چمڑی محض مکھی کا پر ثابت ہورہی ہے۔
شہر کے انہیں راستوں سے گزر رہے ہیں، گڑھوں سے گزرتی بائیک پر حاملہ ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کو گزرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں لیکن مجال کہ ان کے دیدے کا پانی زندگی کا ثبوت پیش کرے۔
جنازوں کو ٹرالیوں سے قبرستان تک پہنچانے کے واقعات معمول ہو چکے ہیں۔ نمازیوں کا گندے، ناپاک پانیوں سے گزر کر مسجد تک جانا عام بات ہے۔ مدرسوں کے بچے اور بچیوں کا گٹر کی غلاظت سے گزر سینوں سے قرآن لگائے جانا بھی ان گھاگ سیاستدانوں کو نظر نہیں آتا۔
اسی شہر کے آؤٹر حلقے کی خبر لیں تو گمان ہوتا ہے ہم کسی دوسرے سیارے کے باشندے ہیں
شہر کا سب سے زیادہ ٹیکس سینٹرل حلقے سے جمع کیا جاتا ہے لیکن فنڈ کا استعمال آؤٹر حلقے میں ہوتا ہے کیونکہ۔۔۔۔۔۔
ہمارے حرام خور سیاست داں جو تاریکی میں ہم پیالہ و ہم نوالہ ہوتے ہیں وہ دن کی روشنی میں الزام الزام کھیلتے ہیں۔
یہ حرام خور سیاستداں بنا کام کئے فنڈ نکالنے کا کام کرتے ہیں۔
یہی وہ گینڈے کی نسل کے لوگ ہیں جو آفات کے دوران بھی عوام کی خدمت و دادرسی کی بجائے سیاست سیاست، الزام الزام، فنڈ فنڈ اور کریڈٹ کریڈٹ کھیلتے ہیں۔
یاد رکھو شہر کے باشعور، پڑھے لکھے، بنکر، مزدور، تاجر، علماء دین اگر اب بھی تم نے آنکھ نا کھولی اور کوئی مثبت تبدیلی کی جانب قدم نہیں اٹھایا تو آنے والی نسلوں کے سب سے بڑے مجرم آپ ہی ہونگے۔