ابھی کچھ ہی دن پہلے کی بات ہے ہم کچھ دوست چائے
پینے کےلئے گئے ۔ ہوٹل پر تھوڑی سی دور کچھ بزرگ بیٹھے تھے اور وہ لوگ بالکل چڑھے
ہوئے انداز میں مالیگاؤں کی سیاست پر بات کر رہے تھے ۔ کچھ نوجوان بھی پاس میں ہی
بیٹھے تھے اور انداز بیاں بتا رہا ہے وہ بھی سارے سیاست سے پریشان ہیں۔
نئے
کردار آتے جا رہے ہیں
مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے
خیر ! باتوں باتوں میں ہم لوگ بھی
سیاست کے موضوع پر گفتگو کرنے لگے اور کچھ الگ الگ پارٹی کے حمایتی ساتھ تھے تو کچھ
دوستوں میں تھوڑی ان بن ہوگئی.
کوئی بادہ کش،کوئی تشنہ لب،تو کسی کے ہاتھ میں جام ہے
اب اس میں کوئی کہے تو کیا یہ تومیکدے کا نظام ہے
لیکن اس گفت و شنید کے دوران مجھے
اور میرے دوستوں کو ایک بات سمجھ میں آئی کے ابھی تک کسی کے کام کی تعریف نہیں ہوئی
صرف دوسروں کی غلطی بتا کر بحث کی جارہی ہے جو کہ ہماری بے وقوفی کا بہترین ثبوت
ہے. شہر موجودہ سیاست سے بہت پریشان ہے اور اس کا حل عوام کے پاس ہی ہے ۔ اور وہ یہ
ہے کہ تعلیمی میعار رکھنے والے طبقے کی حوصلہ افزائی کی جائے انہیں اچھی سیاست کرنے
کی دعوت دی جائے ۔ اور شخصیت پرستی کی بجائے انہیں راہ راست پر لانے کی زمہ داری
عوام کی ہے اب وقت آگیا ہے ہمیں شہر کے حالات سدھارنے کے لئے سیاسی رہنماؤں سے سوال
کرنا ہوگا ۔ جو بہترین نمائندگی کا دم بھرتے ہیں ان کے پاس الزام تراشی کے سوا کچھ
بھی نہیں ۔ غیبت کبریٰ میں خود بھی ملوث ہیں اور شہر کی بھولی بھالی عوام کو بھی اس
میں جھونکا جا رہا ہے۔
کچھ لیڈر تو عوام کو اتنا بے وقوف سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں
کہ فلاں وارڈ اپنا ایک دم پکا وارڈ ہے کتے کو بھی ٹکٹ دیں گے تو جیت جائے گا۔ دراصل
وہ اپنی مضبوطی نہیں بلکہ عوام کی بے وقوفی کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں ۔ لیکن عوام
اتنی بے وقوف نہیں شہر کی عوام سب ہی راشن چوروں اور کارپوریشن میں لوٹ مار کرنے
والوں سے با خبر ہے ۔ اب شہر کو آپ مزید بے وقوف نہیں بنا سکو گے ایک اچھی تعداد
تبدیلی چاہتی ہے اس گندی سیاست اور سیاستدانوں سے. اس وقت شہر کے سیاسی حالات میں
سدھار لانے کے لئے تعلیم یافتہ افراد کی اشد ضرورت ہے۔ جو تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ
ساتھ بہترین نمائندگی کی قابلیت رکھتے ہوں، اور مالیگاؤں میں ایسے لوگوں کی کمی
نہیں ہے جو بہترین نمائندگی کی قابلیت رکھتے ہیں۔۔ بس ہمیں انہیں تلاشنا ہے اور
انکے ساتھ چلنا ہے تب ہی ان سارے مسائل سے چھٹکارا پاسکے گے ۔۔
مسائل
🔷 شہر میں
بڑھتے ہوئے جرائم، مرڈر، لوٹ مار وغیرہ
🔷 نشہ آور چیزوں کی خرید وفروخت میں اضافہ
🔷 دن دھاڑے ہتھیاروں کا استعمال
🔷 راشن کا چوری ہونا۔ جس سے عوام کی تکلیف بڑھ
رہی ہے اور انکا کوئی پرسانِ حال نہیں
🔷 کارپویشن میں لوٹ مار
🔷 ایک دوسرے پر
الزام لگانا
🔷 ایک ہی گھر میں درجنوں سے کارپوریٹرس و ٹھیکے داروں کی بھر مار
🔷
دادا گیری کا بالکل عام ہونا
🔷 پہلے تو کام ہوتا ہی نہیں ۔۔اور اگر خدا نخواستہ
کام ہو جائے تو ایکدم گھٹیا کوالٹی کا کام
🔷 جھوٹے وعدے
🔷 سیاسی رہنماؤں کی آپسی
دشمنی کا بڑھنا آخر ہم کب تک سیاسی جماعتوں کی آپسی رنجش کا شکار ہوتے رہیں گے اور
چپ چاپ شہر کا نقصان دیکھتے رہیں گے۔ مالیگاؤں مہاسبھا کی خبروں کو دیکھو تو لگتا
ہی نہیں یہ رہنما مسجد و میناروں کے شہر سے ہیں۔ گالی گلوچ تو بالکل عام ہے یہاں تک
کہ یہ سیاسی رہنما مار پیٹ بھی کر لیتے ہیں اور شہر کا نام روشن کرتے ہیں
دیکھو گے
تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں
ڈھونڈوگے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا