🖋ثناءاللہ صادق تیمی
یہ سامنے کی حقیقت ہے کہ انسانی زندگی مردو عورت کے
باہمی ملاپ سے آگے بڑھتی ہے ۔
دنیا کے لیے ایک مرد کی جتنی ضرورت ہے ایک عورت کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے اور سچی بات یہ ہے کہ دونوں صنفوں کے بغیر کائنات بے معنی ہوکر رہ جائے گی ۔ آدم کے ساتھ جنت میں حوا کی موجودگی اس حققیت کو مبرہن بھی کرتی ہے ۔ اللہ پاک نےبنی نوع انسان کی فطرت میں یہ خصوصیت رکھی ہے کہ مرد کا عورت کی جانب اور عورت کا مرد کی جانب میلان ہوتا ہے بلکہ جنسی خواہش بقیہ خواہشوں کے بالمقابل کہیں زيادہ طاقتور ہوتی ہے ۔اسی لیے اسلام کا نقطہ نظر یہ ہے کہ بالغ خواتین وحضرات کو شادی شدہ زندگی ہی بسر کرنی چاہیے ۔
اسی لیے لگ بھگ تمام ادیان وملل میں شادی کا طریقہ رائج ہے اور اس کے ذریعے اس خواہش کی جائز تکمیل ہوتی ہے ۔ اس خواہش کو چاہے جس نام سے یاد کیا جائے لیکن یہ سچ ہے کہ انسانی زندگی میں اس کی بڑی اور بنیادی حیثيت ہے ۔ دین انسان کی ضرورتوں کی تکمیل کے ساتھ ہی اس کے قلب و نظر کی تطہیر پر دھیان صرف کرتا ہے ۔ اسی لیے وہ چاہتا ہے کہ انسان کی خواہش کی تکمیل بھی ہو اور وہ شتر بے مہار بھی نہ ہوجائے ۔جنس کے سلسلے میں شریعت میں توازن بھی ہے اور وضاحت بھی اور اس وضاحت میں حیا بھی ہے اور تہذيب بھی ۔آئیے تھوڑی باتیں کرتے ہیں ۔
شریعت مسلمان کو سکھلاتی ہے کہ وہ بالغ ہونے پر شادی کرلے ، شادی کرنے کےلیے اسے دینداری کو ترجیح دینا چاہیے ۔ دینداری کا مطلب غلط طریقے سے بہت سے لوگوں نے غریبی سمجھا ہوا ہے !!جب کہ دیندار غریب بھی ہوسکتے ہیں اور صاحبان دولت بھی اسی طرح بے دین غریب بھی ہوسکتے ہیں اور صاحبان دولت بھی ۔ دیندار اسے کہا جائے گا جو دین پر عامل ہو اور دین کی روشنی میں اپنے امو رانجام دیتا ہو ۔ شادی میں سادگی ہو اور بے جا اسراف سے بچا جائے ، شادی کو آسان کیا جائے اور جب کسی ولی کو نیک اور صالح انسان کی طرف سے پیغام ملے تو اسے انکار نہیں کرنا چاہیے ۔ فتنہ وفساد کو روکنے کا یہ بہت اچھا ذریعہ ہے کہ شادی وقت پر ہو ۔ غور کیجیے تو سماج کی بہت سی برائیوں کے پیچھے یہ وجہ
ملے گی کہ شادی میں تاخير ہوتی ہے اور شادی کو مشکل بنادیا گيا ہے ۔
شریعت کا مزاج یہ ہے کہ جنس کے معاملے میں
اس تفصیل تک نہ جایا جائے جو حد تہذيب اور تقاضائے حیا کے خلاف ہو ۔ چنانچہ یہ کہہ کر جیسے ساری وضاحت کردی گئی اور پردہ بھی رکھا گيا کہ " تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں ، اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو آؤ" ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا " اگر تم سے کسی کو کوئی عورت اچھی لگ جائے تو اسے اپنی بیوی کے پاس آنا چاہیے اور اپنی ضرورت پوری کرنی چاہیے کہ خود اس کی بیوی کے پاس بھی وہی ہے جو اس عورت کے پاس ہے "
غور کیجیے تو کتنی بڑی بات کتنے سلیقے سے کہہ دی گئی ہے !!
اس معاملے میں شریعت نے حرام کی وضاحت کردی کہ حالت حیض ونفاس میں مباشرت نہ کی جائے ، دبر ( پاخانے کے راستے ) میں مباشرت کرنا حرام ہے اور ایسا کرنے والا ملعون ہے اور جب آدمی روزہ ہو تو مباشرت نہ کرے ۔
ساتھ ہی یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اسلام میں حیض ، نفاس ، استحاضہ ، احتلام اور مباشرت سے متعلق تمام مسائل کو سلیقے اور وضاحت سے بیان کیا گيا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام چيزیں انسانی زندگی سے متعلق ہیں تو ان کی وضاحت کے بغیر انسانی ضرورتیں پوری بھی نہیں ہوسکتیں ۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے ہمیں یہ روشنی بھی ملتی ہے کہ ان مسائل کو بیان کرتے ہوئے آپ نے اس وضاحت سے کام لیا جس میں حیا اور تہذیب بھی برقرار رہی اور مسئلہ واضح بھی ہوگيا ۔ کبھی اس حدیث پر غور کیجیے جس میں ایک صحابیہ پوچھتی جاتی ہیں کہ میں کس طرح صاف کروں اور آپ صاف کرلو ، صاف کرلو بھی کہتے ہیں اور غیر ضروری تفصیل سے بچتے بھی جاتے ہیں ۔بالآخر اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا انہيں اندر کھینچ لیتی ہیں اور سمجھاتی ہیں ۔
اسلام نے اس معاملے میں تفصیل رکھ کر بھی پردہ رکھا ہے یا یوں کہیے کہ پردہ رکھ کر بھی تفصیل رکھی ہے ۔ شریعت نے زیر ناف صاف کرنے کا حکم دیا ہے ، بچے جب سن شعور کو پہنچنے لگ جائیں تو ان کے بستر الگ کر دیے جائیں ، ایک ہی چادر میں دو مرد یا دو عورت نہ سوئیں ،خواتین پردہ کردیں ، مردو خواتین نگاہوں کی حفاظت کریں ، کپڑے ایسے ہوں جن سے ستر پوشی ہو ،باتوں میں حیا ہو ، بے حیائی اور فحش گوئی سے گریزکیا جائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایک مخنث کودیکھا کہ وہ خواتین کے جسمانی حسن کو اس انداز میں بیان کررہا ہے تو بیویوں سے کہا کہ دوبارہ یہ مخنث اندر نہ آئے لیکن ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زن وشو کے احکام بھی بیان کیے ۔ شب زفاف کے آداب بھی سکھائے اور یہ ساری چيزیں اس سلیقے سے بیان کیں کہ ضرورت کی تکمیل ہو اور تطہیر قلب ونظر کا سامان بھی ہوجائے ۔
اس تفصیل سے یہ حقیقت سمجھ میں آہی گئی ہوگی کہ جنسی مسائل و احکام سے متعلق شریعت اسلامیہ کا نقطہ نظر کیا ہے ؟ شریعت چاہتی ہے کہ درست معلومات درست طریقے اور مہذب انداز میں لوگوں تک پہنچے۔اس تہذيب اور سلیقے کی کمی نے معاشرتی سطح پر عجیب وغریب کیفیت پیدا کردی ہے ۔پڑھے لکھے لوگوں میں بھی ان مسائل کو لے کر درست تربیت اور صحیح معلومات کی کمی ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ زیادہ تر لوگ معلومات وہاں سے لیتے ہیں جہاں سے انہیں درست کم اور غلط معلومات کا انبار زیادہ ملتا ہے ۔ ماں باپ یا اساتذہ مہذب انداز میں جنس سے جڑے مسائل اگر نئی نسل کو نہیں سمجھا سکیں تو لازما اس ضرورت کی تکمیل کے لیے وہ کہیں اور جائیں گے اور جہاں جائیں گے وہاں ان کے اخلاق بھی بگڑنے کا ڈر ہوگا اور صحت بھی خراب ہونے کا خدشہ بنا رہے گا ۔احتلام ، حیض اور جنسی رحجان کو لے کر نوجوان نسل پریشان رہتی ہے ، وہ زیادہ تر جیسے تیسے حکیموں کے چکر میں پھنس جاتی ہے یا پھر باباؤں کے فریب میں آجاتی ہے جب کہ ان کی اکثریت کو کوئی عارضہ لاحق نہيں رہتا سوائے اس کے کہ انہیں وہم ہوتا ہے اور غلط معلومات کی وجہ سے فطری چيزوں کو بھی وہ بیماری سمجھ لیتے ہیں ۔ایسے میں اگر تہذیب و سلیقہ کے ساتھ درست اور صحیح معلومات سے ان کی تربیت کی جائے تو ان شاءاللہ یہ پریشانیاں دور ہوسکتی ہیں ۔