Advertising

کون تھے حضرت ٹیپو سلطان ؟ جانئیے تفصیل میں ۔ خاص پیشکش

Hum Bharat
Friday, 20 November 2020
Last Updated 2021-03-14T09:37:26Z
Premium By Raushan Design With Shroff Templates

        فرنودؔ رومی، مالیگائوں

 20 نومبر ،2020



قارئین کرام!جہاں ہری بھکت ڈاٹ کام پرموجود غلط بیانیے ٹیپو سلطان کو دہشت گرد اور ظالم و جابر سلطان ثابت کرنے پر مصر ہیں وہیں معروف ہندو محقق روی ورما اپنی کتاب ٹیپو سلطان: ایز نون اِن کیرالا میں ر قم طرازہیں کہ ” ٹیپو سلطان اور ان کے متعصب وظالم سپاہیوں نے شمالی کیرالا،کورگ،منگلور اور کرناٹک کے دوسرے حصوں پر قبضہ کر کے ہزاروں ہندوئوں کو زبردستی مسلمان بنایا تھا۔اور ایک آج ایک عام آدمی مسلمانوں کےارتکاز(جمعیت) اور ہندوئوں کے مسمار شدہ منادر کے کھنڈرات دیکھ کر اندازہ لگا سکتا ہےکہ ٹیپو سلطان نے کیسی اسلامی سفاکیت و دہشت گردی مچا رکھی تھی(نعوذ باللہ)۔

ریاست کرناٹک کے بی جے پی رہنما اننت ہیگڑے کا بھی کم و بیش یہی کہنا ہے کہ ” ٹیپو سلطان ایک متعصب حکمراں تھا جس نے بہت سےمنادر ڈھائے اورریاست میسور سے باہرکیرالاجیسے ساحلی علاقوں میں ہزاروں ہندوئوں کا قتل عام کیا“ ۔مزید کہاکہ ”ٹیپو ہیرو نہیں بلکہ ہزاروں ہندوئوں کا قاتل ہے“۔جبکہ حیات ٹیپو پر گہرا مطالعہ کرنے والے مورخ پروفیسر بی شیخ علی کے مطابق ان دعوئوں کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ” ٹیپو کی شبیہ خراب کرنے میں موجودہ سیاسی ماحول کا بڑا ہاتھ ہے۔ جب مسلمان ہندوستان آئے تو انہوں نے اپنے حساب سے تاریخ لکھی ،جب انگریز آئے تو انہوں نے اپنے حساب سے لکھ ماری ۔اب زیر اقتدارسیاسی  پارٹی مذہبی بنیادوں پر تاریخ میں ردو بدل کرنا چاہتی ہے اور تاریخی حقائق کو مسخ کردینا چاہتی ہے۔“

گذشتہ سال کم و بیش ہراخبار میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ کرناٹک کی تاریخ کی درسی کتب سے ٹیپو سلطان پر مبنی سبق کو حذف کرنےکا پر زور مطالبہ  زیر اقتدار پارٹی کی جانب سے ہواہے ۔اور اس سلسلے میں کرناٹک کے وزیر تعلیم سریش کمار کی ہدایات نصابی کتب کی ترتیب کار اور مسودے تیار کرنے والی کمیٹی کو جاری کی گئی ہیں۔آئیےاس سلسلے میں ہم اوراقِ تاریخ کو پلٹ کر حقیقت کی نقاب کشائی کریں اور ساتھ ہی ہندوستانی تاریخ کے پہلے مجاہد آزادی شہید ٹیپو رحمہ اللہ کے ساتھ ہونے والی تاریخی ناانصافیوں کو کھول کھول کر بیان کر دیں۔

اٹھارویں صدی کے آغاز میں جنوبی ہند( سائوتھ انڈیا) میں حیدر علی خان نے میسور نامی سلطنت قائم کی تھی۔اور اسکا صدرمقام سریا رنگاپٹنم کو بنایا تھا۔ یہ وہی شخصیت ہیں جنہوں نے پہلے پہل انگریزوں کے خلاف علم جہاد بلند کیا اور بغاوت چھیڑی۔ان کے یہاں 20،نومبر 1750 کو ایک بچہ پیدا ہوا جسکا نام فتح علی رکھا گیا جسے دنیا ٹیپو سلطان(شیرِ میسور یا شیرِ ہند) کے نام سے جانتی ہے۔اپنے والد حیدر علی کی وفات کے بعد ٹیپو نے اپنی ماں کی خدمت میں حاضری دی،خوب دعائیں لیںاور دو رکعت نفل نماز پڑھ کرتخت شاہی پر براجمان ہوئے۔اپنے والد حیدر علی سے انہیں وراثت میں تاج وتخت اور انگریزوں سے ِچھڑی ہوئی  بغاوت  ملی۔ ٹیپو سلطان نے بڑی جوانمردی سے دونوں ورثے بخوبی سنبھالے۔آپ شہسواری،تیر اندازی اور فن حرب و ضرب میں ماہر تھے۔آپ نےبلاتفریق مذہب ہندو،مسلم اورعیسائی ہر کسی کے ساتھ اچھے برتائو اور حسن سلوک کی انوکھی تاریخ رقم کی۔ یہی وجہ تھی کہ ٹیپو کی فوج میں ہندوئوں کی کثیر تعداد تھی اور کئی ہندو اہم حکومتی عہدوں پر فائز تھے۔ نیز قلعہ سری رنگا پٹنم کی محافظ فوج میں ہزاروں ہندو عورتیں شامل تھیں جنہوں نے ٹیپو کے لئے اپنی جانیں تک نچھاور کر دی تھیں۔ آپ کے محل کے داخلی  دروازے سے محض چند سو میٹر کی دوری پر ایک بہت بڑا مندر واقع تھا جو غالباً آپ ہی کی عطا کردہ زمین پر تعمیر کیا گیا تھا۔اور خود ٹیپو نے متعدد منادر تعمیر کروائے اور مندروں کے لیے زمینیں دیں۔آپ نےاپنی سلطنت میں عدل و انصاف کو قائم کیا ۔مذہبی بنیاد پر کبھی جنگ نہیں کی بلکہ جن ہندو گروہوں کے خلاف انہوں نے جنگی کاروائی کی وہ ان گروہوں کی اپنی بغاوتی کارستانیوں کا نتیجہ تھی۔ٹیپو نےدینداری و تقوی شعاری کے ساتھ زندگی بسر کی۔جنگوں میں مصروف رہنے کے باوجودصاحب ترتیب تھے یعنی سنِ بلوغت کے بعد سےآپکی ایک بھی نماز قضاء نہیں ہوئی۔یہ واقعہ مشہور ہے کہ مسجد اعلیٰ کے افتتاح کے وقت اعلان کیا گیا کہ اس مسجد کی پہلی امامت وہ بزرگ کرے جس نےبالغ ہونے کے بعد سے ایک بھی نماز قضانہیں کی۔حاضرین مجلس میں موجودعلماء ومشائخ کی ایک بڑی تعداد میں سے جب کوئی نہ اٹھا تو ٹیپو سلطان خود آگے بڑھے اور امامت کی۔آپ ہمیشہ باوضو رہتے اور فجر کے بعد تلاوت بلاناغہ کرتے۔تعلیم یافتہ تھے اور تعلیم کی اہمیت سےخوب واقف تھے لہذاسری رنگا پٹنم میں جامع الامور یونیورسٹی قائم کی جس میں دینی و دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم کا نظم تھااور ہر فن کے ماہرین اعلی تنخواہ پر بحیثیت معلم مامور کئے گئےتھے۔ہندوستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ٹیپو ہی نے اپنی سلطنت میں مردم شماری کروائی نیزپنچایتی نظام کی بنیاد رکھی ۔آپ نےجدید جنگی اسلحے جیسے پہلی میزائل ،پہلا راکٹ اورپہلی بلٹ پروف جنگی گاڑیاںبنوائیں۔آپ پہلے حکمراں تھے جس نے لوگوں کوحب الوطنی پر مبنی پہلا نعرہ دیاکہ ”ہندوستان ہندوستانیوں کے لئے ہے“۔ غرضیکہ ٹیپو سلطان کی شخصیت دین و سیاست کاایک حسین امتزاج تھی۔

انگریزوں سے انہوں نے دو بڑی لڑائیاں لڑیں۔مگر اپنے صفوں میں موجودنمک حرام مسلم غداروں اور انگریز نواز مراٹھوں کے سبب ٹیپو سلطان کو بارہاشکست کا سامنا کرنا پڑا۔اور بالآخر  4 مئی، 1799 کو  میدان جنگ میں بہادری کے ساتھ لڑتے ہوئے صرف 49 سال کی عمرمیں آپ نے جام شہادت نوش فرمائی۔آپ کی شہادت سےگویا انگریزوں کی راہ کا سب سے بڑا روڑا ہٹ گیاتھا اسی لئے انگریزجنرل ہارس ،ٹیپو کی نعش کے قریب پہونچ کر فرط مسرت سے پکار اٹھا کہ ”آج سے ہندوستان ہمارا ہے“۔ اس طرح انگریزرفتہ رفتہ بآسانی پورے ہندوستان پر قابض ہو گئے۔آپ ہی وہ پہلے مجاہد ِآزادی ہیں جنہوں نےاپنے والد کے بعد آزادی کی آگ روشن رکھی جو برابر سلگتی رہی اور نتیجے میں دیڑھ سو سال بعد بالآخرانگریزوں کوہندوستان چھوڑنا پڑا۔

آپ کا یہ قول زبان زد خاص و عام ہے کہ” شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑکی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے۔“

ٹیپو سلطان ریاست کرناٹک کے شہر میسور سے 15 کلومیٹر کی دوری پر واقع سری رنگا پٹنم نامی مقام(سلطنت میسور کا پرانا دارالحکومت) پر اپنے والد حیدر علی اور والدہ فاطمہ فخر النسا کے پہلو میں دفن ہیں۔اس جگہ ٹیپو کے دور کے محلات ،عمارتیں اور کھنڈرات آج بھی موجود ہیں جنہیں دیکھنے آج بھی دور دراز سے لوگ سفر کرکے آتے ہیں اور انہیں ایک سچا محب وطن ،انگریزوں سے لڑتے ہوئے اپنی جان دینے والا ہیرو اورایک سیکولر حکمراں تسلیم کرتے ہیں۔

بعض مورخین نے لکھا ہے کہ ٹیپو سلطان رحمہ اللہ کی سلطنت کو گرانے میں نظام دکن ،میر صادق(شہید ٹیپو کا وزیر اور میسور کی مجلس شوری کا صدر) اور میر غلام علی لنگڑا کا بڑا کردار رہا تھا اور یہ لوگ انگریزوں سے ملے ہوئے تھےکیونکہ ایک واقعے کے مطابق جب انگریز ایک وقت میں ٹیپو شہید کے بیٹوں کو حکومت واپس کرنے پر آمادہ ہوئے تو نظام دکن اور میر غلام علی نے کہا تھا کہ”جب سانپ مار دیا تو سنپولے پالنے کا کیا فائدہ؟“۔تب انگریزوں نے ٹیپو شہید کی اولاد کو میسور سے بے دخل کر کے ٹاہلی گنج،کلکتہ منتقل کر دیا تھا اور انکی تمام جائیداد ضبط کر لی تھیں۔

بابائے میزائل مرحوم ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام اپنی سوانح عمری ونگس آف فائر (جس کااردو ترجمہ پر ِآتشیں کے نام سے شائع ہوا) میں لکھتےہیں کہ” ناسا میں میرے دورے کے آخری روز میں امریکی ریاست ورجینیا میں ناسا کے راکٹ پروگرام کی ایک عمارت میں داخل ہوا۔وہاں میں نےریسیپ شن لابی (مہمانوں کا استقبالی کمرہ)میں ایک پینٹنگ دیکھی جس میں جنگ کا ایک منظر دکھایا گیا تھا اور پس منظر میں راکٹ داغے جارہے تھے۔جس بات نے میری توجہ کھینچی وہ یہ تھی کہ اس پینٹنگ میں راکٹ داغنے والے سپاہی سفید فام نہیں بلکہ گہرےگندمی رنگ(سیاہ فام) والے فوجی تھے۔دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ یہ ہندوستان کےٹیپوسلطان کی فوج کے سپاہی ہیں جو انگریزوں سے میدان کارزار میں نبرد آزما ہیں۔یہ پینٹنگ اس بات کی منہ بولتی تصویرتھی کہ ٹیپو سلطان کی شخصیت اور انکی عظمت کو خود انکےاپنے ملک کےلوگوں نےبھلے بھلا دیا ہو، تاہم دنیا کے اس پارلوگوں نے انہیں اب تک یاد رکھا ہے۔“

iklan
Comments
Commentsyang tampil sepenuhnya tanggung jawab komentator seperti yang diatur UU ITE
  • Stars Rally to Beat Predators in Winter Classic at Cotton Bowl